Express News:
2025-09-17@21:43:08 GMT

موجودہ سیلاب میں حاملہ خواتین کے مسائل و تجاویز 

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

سیلاب جب اپنی طغیانی دکھاتا ہے تو زمین صرف پانی میں نہیں ڈوبتی، امیدیں اور خواب بھی بہہ جاتے ہیں۔ کھیتوں کی سبزیاں تو اگ سکتی ہیں، مکانوں کی دیواریں اور سڑکوں کی راہداریاں بھی دوبارہ بن سکتی ہیں، لیکن ماں اور بچے کی سلامتی اگر ایک بار خطرے میں پڑ جائے تو اس کی تلافی آسان نہیں۔

رواں برس کے سیلاب نے پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں جو قیامت ڈھائی، اس کی اصل تصویر خیموں، کیچڑ بھری گلیوں اور بے یار و مددگار عورتوں کے چہروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، بستیاں اجڑ گئیں اور انسانیت ایک بار پھر قدرتی آفت کے امتحان میں مبتلا ہوئی۔
ان متاثرین میں سب سے زیادہ کمزور اور نازک طبقات میں حاملہ خواتین شامل ہیں۔ ان کی مشکلات محض جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور سماجی پہلو بھی لیے ہوئے ہیں۔

ایک ماں جو زندگی کو جنم دینے کے سفر پر ہے، اس کے لیے سیلابی خیمہ ایک قید خانہ بن جاتا ہے جہاں نہ رازداری میسر ہے، نہ صحت کی سہولت اور نہ ہی کوئی تسلی بخش نگہداشت۔ سیلاب کے دوران دیہی ڈسپنسریاں بند ہو جاتی ہیں، عملہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتا ہے اور زچگی کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ’تربیت یافتہ دائی‘ نایاب ہو جاتی ہے۔

اعداد و شمار اس حقیقت کو اور زیادہ واضح کرتے ہیں۔ پچھلے بڑے سیلاب میں چھ لاکھ سے زائد حاملہ خواتین براہِ راست متاثر ہوئیں جنہیں فوری دیکھ بھال اور ہنگامی خدمات کی ضرورت تھی۔ موجودہ صورتحال میں بھی لاکھوں عورتیں ایسی ہیں جو یا تو حمل کے آخری مہینوں میں ہیں یا ابھی ابھی ماں بنی ہیں۔ ان کےلیے معمولی تاخیر بھی جان لیوا ہو سکتی ہے۔ زچگی کے دوران خون بہنے کی پیچیدگی، قبل از وقت دردِ زہ، اور ہائی بلڈ پریشر ایسے مسائل ہیں جن کا علاج بروقت نہ ہو تو ماں اور بچہ دونوں موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔

سیلابی کیمپوں کا منظر مزید کربناک ہے۔ تنگ خیمے، غیر محفوظ ماحول اور نجی جگہ کا فقدان عورت کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ دباؤ محض نفسیاتی نہیں بلکہ طبی پیچیدگیوں کو بڑھانے والا عنصر بھی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ کا براہِ راست تعلق بلڈ پریشر اور قبل از وقت پیدائش سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب کے بعد کم وزن بچوں کی شرح بڑھ جاتی ہے اور نوزائیدہ انفیکشنز زیادہ پھیلتے ہیں۔

مسئلہ صرف طبی نہیں، سماجی بھی ہے۔ خیمہ بستیوں میں ہراسمنٹ کا خوف، بنیادی سہولتوں کی کمی اور غیر یقینی مستقبل ایک ماں کو مزید غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔ وہ لمحہ جو خوشی کا ہونا چاہیے تھا، خوف اور کرب میں ڈھل جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟

سب سے پہلا قدم ہنگامی تولیدی صحت پیکیج کی فراہمی ہے۔ زندگی بچانے والی یہ کٹس ادویات، ڈلیوری کا سامان اور نوزائیدہ کی ابتدائی نگہداشت کے لیے بنیادی اوزار فراہم کرتی ہیں۔ اگر یہ کٹس خیموں میں موجود ہوں اور ان کے ساتھ تربیت یافتہ دائی مستقل موجود ہو تو کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
دوسرا ستون بروقت ترسیل ہے۔ سیلاب کے دنوں میں جب سڑکیں اور پل کٹ جاتے ہیں تو ایمرجنسی کی صورت میں حاملہ عورت کو اسپتال پہنچانا سب سے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ ایسے میں مقامی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو کشتیوں اور عارضی ایمبولینس سروس کا انتظام کرنا ہوگا تاکہ خطرناک کیسز کو فوراً قریبی بڑے اسپتال منتقل کیا جا سکے۔

تیسری اہم ضرورت غذائیت اور صاف پانی ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے فولک ایسڈ اور آئرن کی گولیاں، دودھ اور محفوظ خوراک ناگزیر ہیں۔ آلودہ پانی ڈائریا اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریوں کو جنم دیتا ہے، جو براہِ راست حمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر کیمپوں میں ماں اور بچے کے لیے علیحدہ کارنرز قائم کیے جائیں، جہاں مناسب خوراک اور صاف پانی دستیاب ہو، تو یہ ایک بڑا سہارا ثابت ہوگا۔

چوتھی کڑی اسکریننگ اور نگرانی ہے۔ اگر یونین کونسل سطح پر حاملہ خواتین کی فہرست تیار کر کے خطرناک کیسز کو پہلے سے شناخت کر لیا جائے تو ان کی بروقت دیکھ بھال ممکن ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا سابقہ پیچیدگیوں والی خواتین کو قریبی فعال مراکز میں منتقل کر دینا شرحِ اموات کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔

یہ تمام اقدامات اس وقت تک ادھورے رہیں گے جب تک معاشرہ اور ریاست مل کر انہیں ترجیحی بنیاد پر نہ اپنائے۔ آج ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیلابی حالات میں سب سے پہلی ترجیح ماں اور بچہ ہے۔ سمجھ لیجیے کہ جہاں ایک دائی موجود ہے، وہاں زچگی محفوظ ہے؛ جہاں ایک ماں کو تسلی اور سہولت میسر ہے، وہاں پوری قوم کے مستقبل کو تحفظ ملتا ہے۔

سیلابی پانی ضرور اتر جائے گا، کچی دیواریں دوبارہ کھڑی ہوجائیں گی، لیکن اگر ہم نے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو نظر انداز کیا تو نقصان نسلوں تک پھیلے گا۔ قومیں اپنے سب سے کمزور افراد کے تحفظ سے پہچانی جاتی ہیں۔ آج ہماری پہچان کا سوال ہے کہ کیا ہم ان ماؤں کو وہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں جو ان کی جان اور ان کے بچوں کی زندگی بچا سکیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حاملہ خواتین ماں اور جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

حکومت جامعہ پنجاب میں طلبہ پر تشدد کا فوری نوٹس لے‘ حسن بلال ہاشمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-08-3
لاہور(صباح نیوز)اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ حسن بلال ہاشمی نے جامعہ پنجاب میں پرامن طلبہ و طالبات پر پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے تشدد اوردرجنوں گرفتار طلبہ پر شدید تشویش اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ اس واقعے کا فی الفور نوٹس لیا جائے ، یہ کارروائیاں نہ صرف آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ طلبہ کے جائز اور پرامن جمہوری حق کو سلب کرنے کی کھلی کوشش ہیں۔ اپنے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو پرامن احتجاج اور آزادیِ اظہار کا بنیادی حق دیتا ہے۔ جامعات علم و تحقیق کے مراکز ہیں لیکن بدقسمتی سے جامعہ پنجاب کی انتظامیہ فسطائی ہتھکنڈوں کے ذریعے طلبہ کی آواز دبانے، ان کے مسائل کو نظرانداز کرنے اور ان پر زبردستی خاموشی مسلط کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ یہ رویہ نہ صرف تعلیمی ماحول کو تباہ کر رہا ہے بلکہ طلبہ میں بے چینی اور اضطراب کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ناظم اعلیٰ نے کہا کہ پرامن طلبہ و طالبات پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انتظامیہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ جامعات کا اصل حسن مکالمہ، علمی مباحثہ اور طلبہ کی فکری و جمہوری آزادی ہے، لیکن انتظامیہ اس حسن کو جبر اور طاقت کے زور پر کچلنا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی طلبہ کے مسائل، ان کے تعلیمی اور فلاحی حقوق کے لیے پرامن اور جمہوری جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے۔ جمعیت نے ہمیشہ لائبریریوں، ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ، فیسوں میں کمی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی جیسے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ طلبہ کے خلاف تشدد سے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کرے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت اس واقعے کا فوری نوٹس لے، گرفتار شدہ تمام طلبہ کو فی الفور رہا کرے اور اس تشدد میں ملوث سیکورٹی و پولیس اہلکاروں اور ذمے دار افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ حسن بلال ہاشمی نے متنبہ کیا کہ اگر صوبائی حکومت نے اس جبر کو بند نہ کیا اور گرفتار طلبہ کو رہا نہ کیا گیا تو اسلامی جمعیت طلبہ ملک بھر کے طلبہ کے ساتھ مل کر بڑے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کا استحصال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جمعیت ہمیشہ طلبہ کے حقوق کے لیے میدانِ عمل میں موجود رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت جامعہ پنجاب میں طلبہ پر تشدد کا فوری نوٹس لے‘ حسن بلال ہاشمی
  • سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس
  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • گوادر میں پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان کے اہم اقدامات
  • نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر سینیٹ کمیٹیوں سے استعفے دے رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر
  • مولی کا باقاعدہ استعمال صحت کے کونسے مسائل سے بچا سکتا ہے؟
  • پی سی بی کا سخت مؤقف، اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی گئیں