آئینی بینچ پارلیمان کی منشاء کی عکاسی کرتا ہے: جسٹس شاہد بلال حسن
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ آئینی بینچ، آئینِ پاکستان میں 26ویں ترمیم کے تحت قائم کیا گیا جو پارلیمان کی منشاء اور مرضی کی عکاسی کرتا ہے اور عدالت کی کارکردگی میں ایک ساختی پیش رفت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام صحافیوں کی عالمی تنظیم کا خط، مسئلہ کیا ہے؟
گریز اِن لندن میں بین الاقوامی وکلا ایسوسی ایشن کے ڈنر سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بینچ آئینی تشریحات اور فیصلوں پر خصوصی توجہ کو یقینی بناتا ہے۔
عدلیہ کا آئینی کردارجسٹس شاہد بلال حسن نے زور دیا کہ عدلیہ اپنی حدود آئین سے باہر نہیں بڑھا سکتی اور اُسے ہمیشہ اپنے آئینی کردار پر کاربند رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ آئین کی محافظ ہے اور اسی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے۔
سیمینار میں شرکتسپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق، جسٹس شاہد بلال حسن نے 18 جولائی کو بین الاقوامی وکلا ایسوسی ایشن کے سالانہ سیمینار اور عشائیے میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
اس تقریب میں دنیا بھر کے نمایاں قانونی ماہرین شریک ہوئے، جن میں بالخصوص پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، برطانیہ کے ماہرینِ قانون اور سابق جج بھی شامل تھے۔
مکالمہ اور مباحثہیہ سیمینار عصری قانونی مسائل، عدالتی نظام کو درپیش چیلنجز اور انصاف و قانون کی بالادستی کے لیے بین الاقوامی قانونی برادری کے مشترکہ عزم پر مکالمے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہوا۔
مقدمات کے بیک لاگ کا مسئلہاپنے خطاب میں جسٹس شاہد بلال حسن نے سپریم کورٹ میں مقدمات کے بھاری بوجھ کا اعتراف کیا اور کہا کہ انصاف تک رسائی بروقت اور مؤثر فیصلوں کی متقاضی ہے۔
انہوں نے یقین دلایا کہ جج صاحبان اپنے آئینی فریضے سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسے محنت، غیر جانبداری اور مؤثر انداز سے ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انتظامی اصلاحات کی ضرورتانہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے منظم اقدامات پر زور دیا، جن میں کیس مینجمنٹ میں بہتری، سماعتوں اور نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، اور عدالتی وقت کی بہتر تقسیم شامل ہیں تاکہ اہم آئینی معاملات کو ترجیح دی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ بار کی عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز کیا ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کے بوجھ کو کم کرنا صرف انتظامی ضرورت نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے، جو عدلیہ پر عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کے لیے ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس شاہد بلال حسن سپریم کورٹ گریز اِن لندن لندن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس شاہد بلال حسن سپریم کورٹ جسٹس شاہد بلال حسن نے سپریم کورٹ کے لیے
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔