سپریم کورٹ رولز میں اصلاحات کی تجاویز، عدالتی فیس میں اضافے کی مخالفت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حافظ احسان کھوکھر نے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط میں بہتری کے لیے اہم تجاویز سپریم کورٹ کو بھجوا دیں۔ ان بارہ صفحات پر مشتمل تحریری تجاویز رجسٹرار سپریم کورٹ کے ذریعے جمع کروائی گئیں، جن میں عدالتی فیسوں میں حالیہ اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ۔
تجاویز میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آمدن پیدا کرنے کا ادارہ نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ عدالتی فیسوں میں اضافہ آئین کی شق 37(D) کے تحت سستے اور فوری انصاف کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔
دستاویز میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسے ترکی، چین، فرانس، جرمنی اور ناروے کے عدالتی نظاموں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جہاں یا تو عدالتی فیسیں نہایت کم ہیں یا انصاف کی رسائی کو مالی استطاعت سے مشروط نہیں کیا جاتا۔
مزید تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ہر اپیل کو ایک سال کے اندر نمٹایا جائے جبکہ سول اپیلوں کا فیصلہ چھ ماہ میں آ جانا چاہیے۔
جب ایک مقدمہ کاز لسٹ میں شامل ہو جائے تو اسے صرف کسی غیر معمولی یا ہنگامی صورت میں ہی لسٹ سے نکالا جائے، اور اگر نکالا جائے تو اگلے ہی کام کے دن خودکار طریقے سے دوبارہ فکس ہونا چاہیے۔
عدالتی کارروائی کے بعد مختصر حکم (شارٹ آرڈر) اُسی دن جاری کیا جائے جبکہ تفصیلی فیصلہ ایک ماہ کے اندر جاری ہو۔
اپیلیں دائر ہونے کے دو ماہ کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔
سپریم کورٹ بار کی جانب سے یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ جج صاحبان کے خلاف کارروائی کرنے والے ادارے، یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائیاں عوامی ہونی چاہئیں تاکہ احتساب کا عمل شفاف ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی شکایت پر چھ ماہ کے اندر فیصلہ آنا چاہیے۔
اس کے علاوہ تجویز دی گئی ہے کہ فوری نوعیت کے مقدمات کی شنوائی کے لیے شام کے وقت بھی سپریم کورٹ میں بینچز تشکیل دیے جائیں تاکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ ہو۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے اندر
پڑھیں:
سپریم کورٹ: پاراچنار حملہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
سپریم کورٹ میں پاراچنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواستِ ضمانت پر سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔
عدالت نے ملزم کو وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے دوران سی ٹی ڈی کے وکیل نے بتایا کہ پاراچنار قافلے پر حملے میں 37 افراد جاں بحق اور 88 زخمی ہوئے تھے۔
اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس واقعے میں صرف ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے؟
انہوں نے مزید سوال کیا، ’جو حملہ آور پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟‘
وکیل سی ٹی ڈی نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث 9 افراد کی ضمانت سپریم کورٹ پہلے ہی خارج کر چکی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے موجودہ صورتِ حال پر استفسار کیا کہ:
اب راستے کھل گئے ہیں؟
وکیل سی ٹی ڈی نے جواب دیا کہ صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا:
جہاں پاراچنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔
عدالت نے بعد ازاں ملزم کو قانونی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں