گجرات میں ریکارڈ بارش: اربن فلڈنگ سے گھر، کاروباری مراکز اور سرکاری عمارتیں ڈوب گئیں، درجنوں دیہات زیرِ آب WhatsAppFacebookTwitter 0 4 September, 2025 سب نیوز

لاہور(سب نیوز )پنجاب کے ضلع گجرات میں 573 ملی میٹر کی ریکارڈ بارش نے تباہی مچادی، اربن فلڈنگ سے شہر میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہوگیا جب کہ کاروباری مراکز اور سرکاری عمارتیں ڈوب گئیں۔گجرات میں شدید بارش نے سب تہس نہس کردیا، 573 ملی میٹر کی ریکارڈ بارش کے بعد سیلاب جیسی صورت حال پیدا ہوگئی، ندی اور نالوں میں طغیانی آگئی، جس کے باعث کئی دیہات ڈوب گئے، فصلوں کو بھی نقصان پہنچا اور معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے۔

شہری علاقوں میں پانی مکانوں اور دکانوں میں داخل ہوگیا، سڑکیں تالاب کا منظرپیش کرنے لگیں، جلال پور جٹاں میں 2 منزلہ خالی عمارت گر گئی، سیلاب سے عمارت کی بنیادیں کمزور ہوگئی تھیں۔بارہ دری، مسلم آباد، محلہ خواجگان،حسن چوک پرنس چوک کچہری محلہ شاہ حسین، رنگ پورہ فوارہ چوک کو لپیٹ میں لیتا پانی جی ٹی روڈ پر پہنچ گیا۔ اربن فلڈنگ کے باعث، سیشن کورٹ، ڈسٹرکٹ جیل، ڈی سی کمپلیکس جیل روڈ بھی چار چار فٹ تک پانی سے بھر گیے۔

قدرتی آفت کے نتیجے میں لوگوں کی لاکھوں روپے کی املاک تباہ اچانک پانی آنے پر ہر طرف افراتفری مچ گئی جبکہ سماجی تنطمییں امداد کرتی نظر آئیں مگر ضلعی انتظامیہ کہیں نظر نہ آئیانتظامیہ نے ضلع بھر کے تعلیمی ادارے آج بند رکھنے کا اعلان کر دیا، سرکلر روڈ اور چوک نواب صاحب میں پانی بھرنے سے تاجر پریشان ہوگئے جب کہ پانی کی نکاسی کے لیے دیگر شہروں سے مشینری اور گاڑیاں منگوالی گئی۔

گجرات کی ڈسٹرکٹ جیل اور احاطہ سیشن کورٹ میں بھی بارش کا پانی داخل ہوگیا اور سیالکوٹ کے بعد اب گجرات سے بھی کئی قیدیوں کو لاہور اور گوجرانوالہ کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔اس سے پہلے سیالکوٹ کی جیل سے ایک ہزار سات قیدیوں کو گوجرانوالہ، حافظ آباد اور نارووال کی جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ قبل ازیں 27 اگست کو سیالکوٹ میں ہونے والی بارش نے شہر کو ڈبو کر رکھ دیا تھا، شہر اور گرد ونواح میں اب تک ریکارڈ 355 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔طوفانی بارش کے باعث سیالکوٹ کے مرکزی علاقوں اور گردونواح کے تمام علاقے پانی میں ڈوب گئے تھے، شہر میں کوئی سڑک، چوراہا، بازار، گلی یا محلہ ایسا نہیں تھا، جہاں 2 سے 3 فٹ پانی کھڑا نہ ہوا ہو۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجھاڑ کھنڈ میں بھارتی فوجی کی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ؛ 2 اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی جھاڑ کھنڈ میں بھارتی فوجی کی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ؛ 2 اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی پاکستان اور چین کا سی پیک فیز ٹو اور 5 نئے کوریڈورز قائم کرنے کا فیصلہ عمران خان اور بشری بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کل ہوگی گجرات اور گردونواح میں 577ملی میٹر کی ریکارڈ بارش،اربن فلڈنگ سے کئی عمارتیں ڈوب گئیں، ملحقہ دیہات زیر آب،قیدی لاہور اور گوجرانوالہ منتقل سیلابی صورتحال ، پنجاب میں قومی اسمبلی کے 5، پنجاب کے 4حلقوں میں ضمنی انتخابات ملتوی برطانیہ کا سندھ میں متوقع سیلاب کے پیش نظر اضافی 45کروڑ روپے کی امداد کا اعلان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: عمارتیں ڈوب گئیں اربن فلڈنگ سے ریکارڈ بارش گجرات میں

پڑھیں:

بارش اور کرپٹ سسٹم

بارش برس گئی، ہر طرف پانی ہی پانی تھا مگرکراچی شہر میں پانی کی نایابی برقرار رہی۔ کراچی کے میئر مرتضی وہاب نے جب سے یہ عہدہ سنبھالا ہے، وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔ میئر نے کوشش کی کہ کراچی میں پانی کی فراہمی برقرار رہے۔

کراچی کے لیے پانی کی سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ حب ڈیم ہے۔ حب ڈیم میں بلوچستان کے پہاڑوں اورکاریز سے بہہ کر آنے والا پانی جمع ہوتا ہے، حب ڈیم کی تعمیرکو عرصہ ہوگیا۔ حب ڈیم سے ایک کینال کے ذریعے کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ کینال طویل عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔

اس کی مرمت کی فوری ضرور ت تھی، یوں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے 12 ارب روپے کی گرانٹ سے حب ڈیم سے آنے والی کینال کی مرمت کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ منصوبہ کئی برس التواء کا شکار ہوا۔ بہرحال اس سال 13 اگست کا دن آگیا، جب مرتضیٰ وہاب نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو حب ڈیم کینال کے افتتاح کے لیے مدعو کیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پرجوش تقریر میں اس کینال کو اپنی حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ صرف پیپلزپارٹی کی حکومت ہی کراچی کے عوام کی خیرخواہ ہے۔

جن صحافیوں نے حب ڈیم کی اس کینال کا دورہ کیا، ان کا اندازہ تھا کہ کام ناقص ہوا تھا۔ میئر صاحب نے حزب اختلاف کے شور غوغا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کام اور صرف کام پریقین رکھتے ہیں۔ مخالفین صرف تنقید کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ اگرچہ کراچی میں بارش ہوئی اور بارش کی مقدار اوسطاِ 40 ملی میٹر کے قریب تھی اور مسلسل بارش کی بناء پر برساتی نالوں میں طغیانی آگئی۔ یہ نہرنادرن بائی پاس سے گزرتی ہے اس بناء پر ناردرن بائی پاس کے قریب کینال کا ایک حصہ سیلابی پانی اپنے ساتھ لے گیا جس سے دونوں کناروں کو نقصان ہوا۔

واٹر کارپوریشن کے ترجمان نے اس نقصان کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا کہ حب ڈیم سے آنے والی کینال کے اوپر سوئی گیس کی پائپ لائن گزر رہی ہے۔ سیلابی پانی سے گیس پائپ لائن زمین میں دھنس گئی جس سے اس کینال کا صرف 20 میٹرکا حصہ متاثر ہوا ہے۔

اس توقع ظاہر کی تھی کہ اگلے 36 گھنٹوں میں کینال کی مرمت کا کام مکمل ہوجائے گا۔ اس ہنگامی صورتحال کی بناء پر ضلع غربی، ضلع کیماڑی اور وسطی کے مکین پینے کے پانی سے محروم ہوگئے۔

کراچی کا قدیم علاقہ لیاقت آباد جس کا اصل نام لالو کھیت ہے وہ تین ہٹی اور جہانگیر روڈ کے ذریعے گرومندر سے منسلک ہوتا ہے اور پھر یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے مل جاتی ہے۔ ایم اے جناح روڈ ٹاور تک جاتی ہے۔

جہانگیر روڈ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہے۔ جہانگیر روڈ کے اطراف جہانگیر روڈ اور مارٹن روڈ کے سرکاری مکانات ہیں اور گرومندر کے قریب بلوچوں کا قدیم گوٹھ ہے۔ جہانگیر روڈ پر ٹریفک کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔

پھر اطراف کی آبادیوں کا سیوریج کا پانی اس سڑک کی بنیادوں کو کمزورکرتا ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی سڑک کی تصاویر اور خبریں پورا سال کئی دفعہ اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی یہ تصاویر وائرل ہوتی ہیں۔

 بلدیہ کراچی نے چند ماہ قبل جہانگیر روڈ کی مرمت کے عزم کا اظہارکیا تھا اوراس کی مرمت کا کام ہوا بھی تھا مگر 19 اگست کی طوفانی بارش نے اس سڑک کو پھر برباد دیا تھا۔ ایک دفعہ پھر اس سڑک کی مرمت ہوئی مگر گزشتہ ہفتے تین دن تک ہونے والی بارش کی وجہ سڑک پھر ٹوٹ گئی۔

10 ستمبر کی رات تک جہانگیر روڈ پر صورتحال خاصی خراب ہوگئی اور ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی۔ کراچی کی ٹریفک پولیس اپنی ہیلپ لائن پر شہریوں کو کراچی کے ٹریفک کی صورتحال سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

10 ستمبر کی رات پولیس اہلکار ہیلپ لائن 1915 پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ جہانگیر روڈ ایک دفعہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے شہریوں کی سہولت کے لیے اپنا پیغام جاری کیا کہ ’’جہانگیر روڈ ڈاک خانہ پر تین ہٹی کے ایم سی والوں نے سیوریج گٹر لائن کا ناقص کام کیا جس کی بناء پر جہانگیر روڈ کا فرسٹ اور سیکنڈ ٹریک بیٹھ گیا ہے مگر تھرڈ ٹریک سے ٹریفک گزارا جا رہا ہے، ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیں۔

شہریوں سے گزارش ہے کہ احتیاط برتیں۔‘‘ پولیس حکام عمومی طور پر اپنے ماتحت عملے کے خلا ف کارروائی سے گریز کرتے ہیں مگر سچائی بیان کرنے والے ان اہلکاروں کو معطلی کے پروانے جاری کردیے گئے۔

 ملیر جام گوٹھ کے قریب ملیر ندی میں آنے والے سیلابی ریلہ کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ زیرِ تعمیر شاہراہِ بھٹوکوکاٹتا ہوا، دوسری طرف نکل گیا جس کے باعث شاہراہِ بھٹو میں کئی فٹ چوڑا اورکئی فٹ گہرا شگاف پڑ گیا۔

روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب کو ملیر ندی کے پانی سے یہ شگاف پڑگیا کیونکہ شاہراہِ بھٹو پر جام گوٹھ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر جاری ہے اور ڈیم کے فرش کو توڑے بغیر سڑک ڈیم کے فرش پر تعمیرکی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملیر ندی میں آنے والے سیلابی پانی کے ریلے کو یہ سٹرک برداشت نہیں کرسکی اور پانی میں بہہ گئی۔

علاقہ مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر میں ملیر ندی کی ہی بجری استعمال کی گئی۔ بجری نکالنے کی بناء پر ملیر ندی میں بڑے اور گہرے گڑھے پڑگئے۔ بعض مکینوں کا کہنا ہے کہ شاہراہِ بھٹو اور نئے بند تعمیر ہونے سے ملیر ندی کا قدرتی راستہ تنگ ہوگیا ہے۔

حکومت سندھ نے شاہراہِ بھٹو کے بہہ جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ منہدم ہونے والا شاہراہِ بھٹو کا وہ حصہ ہے جو زیرِ تعمیر ہے۔ یہ ملیر سیکشن کا حصہ ہے جس پر کام جاری ہے اور ٹریفک کے لیے ابھی کھلا نہیں ہے۔ ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی رپورٹ کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہراہِ بھٹو کا حصہ پانی میں بہہ گیا ہے۔ اس کے ملبے کا سامان بعض افراد اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔

گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے شاہراہِ بھٹوکی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اس شاہراہ کی تعمیر سے ملیر اور گڈاپ کے علاقوں کا ماحولیاتی نظام متاثر ہوگا۔

ملیر اورگڈاپ میں بارش کے پانی سے بہنے والے جھیلوں میں موسم سرما میں سائبیریا سے آنے والے پرندے قیام کرتے ہیں اور اس سیزن میں ہزاروں قسم کے پرندے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں پہنچتے ہیں مگر اس شاہراہ کی تعمیر سے پرندوں کے لیے بہنے والی جھیلیں ختم ہوجائیں گی۔ ملیر اورگڈاپ کے علاقے میں پائے جانے والے آثارِ قدیمہ کے اثرات کو بھی نقصان پہنچے گا مگر سندھ کی حکومت نے ان اعتراضات کو مسترد کردیا تھا۔

ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اس نے زندگی میں پہلی دفعہ ملیر ندی میں پانی کا اتنا بہاؤ دیکھا ہے اور ملیر ندی کے گرد ہونے والی تعمیرات کی بناء پر ندی کا سائزکم ہوا ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اگرچہ 19 اگست کی شب کراچی میں اوسط کم بارش ہوئی مگر کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور تین دن تک مسلسل ہونے والی بارشوں کی بناء پر ملیر اور لیاری ندی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی اور ان ندیوں کے کناروں سے بہنے والے پانی سے 35 آبادیوں سیلابی پانی داخل ہوگیا۔

ان بستیوں کے مکین ندیوں کے پانی کے ابلنے کی رفتار سے آگاہ نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی آبادیوں میں رات گئے پانی داخل ہوگیا۔ بہت سے افراد بے گھر ہوگئے۔ بعض علاقوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریلیف کیمپ قائم کیے۔

ملیر اور لیاری ندی کے کناروں کے ساتھ یہ بستیاں آباد ہوئی تھیں۔ شاہ فیصل کالونی کے نزدیک بعض لوگوں نے ملیر ندی میں سبزیاں اگائی ہوئی تھیں اور مویشی پال رکھے تھے۔ پانی نے ان سب کو رگڑ ڈالا۔ ملیر ندی میں ایک کار اور رکشہ ڈوبنے سے 7افراد لاپتہ ہوگئے۔ 19 اگست کی بارش میں سڑکیں دریا، ندی اور جھیلوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

9 اور 10 ستمبر کو ہونے والی مسلسل بارشوں میں 19 اگست والی صورتحال تو رونما نہیں ہوئی البتہ پورے شہر میں سیوریج کا نظام پھر مفلوج ہوگیا۔ شہرکے ہر علاقے میں سیوریج کا پانی بڑی سڑکوں سے لے کرگلیوں اور محلوں تک میں جمع ہوگیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی تنظیم مسلم لیگ ن اور حزب اختلاف کی جماعتوں جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اکابرین اس ساری صورتحال کو سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی اور کرپشن کے نظام سے جوڑ رہے ہیں۔

ان جماعتوں کے بیانیے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسٹم میں موجودکرپشن اور حکومت کی ناقص کارکردگی بناء پرکراچی تباہی کا شکار ہے۔ حکومتِ سندھ ان الزامات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کے عوام مایوسی کا شکار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب، ستلج میں بڑا ریلا لودھراں‘بہاولپورکے دیہات خطرے میں
  • دریائے چناب میں سیلاب سے بندبوسن کے حالات سنگین، کئی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • دریائے ستلج میں سیلابی پانی میں کمی کے باوجود بہاولپور کی درجنوں بستیوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود
  • دریائے ستلج میں پانی کم ہونے کے باوجود بہاولپور کی درجنوں بستیوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • گڈو بیراج پر پانی کے بہاؤ میں کمی، سکھر بیراج پر دباؤ برقرار، کچے سے نقل مکانی جاری
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • بھارت نے ستلج میں پھر پانی چھوٹدیا ، سندھ ، پنجاب کے متعدد دیہات بدستور زیرآب : علی پور سے 11نعشیں برآمد