چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ انسانیت ایک بار پھر امن یا جنگ، مکالمے یا محاذ آرائی اور باہمی فائدے یا اپنے فائدے کے لیے دوسرے کے نقصان کے کھیل کے درمیان انتخاب کے دوراہے پر کھڑی ہے‘ انسانیت کو جنگل کے قانون کی طرف واپس نہیں جانا چاہیے۔ تیان من اسکوائر میں ہونے و الی پرشکوہ فوجی پریڈ میں شی جن پنگ کے ساتھ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن اور وزیراعظم شہباز شریف موجود تھے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے حالیہ فوجی پریڈ کے موقع پر دنیا کو ایک ایسے موڑ پر کھڑا دکھایا جہاں انسانیت کو ایک بار پھر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جنگ کا راستہ اپناتی ہے یا امن کا، مکالمے کو ترجیح دیتی ہے یا محاذ آرائی کو اور عالمی سطح پر باہمی فائدے کو اہم سمجھتی ہے یا صرف طاقت کے بل بوتے پر دوسرے کو نقصان پہنچا کر فائدہ اٹھانے کی روش اپناتی ہے۔
ان کے الفاظ کہ ’’ انسانیت کو جنگل کے قانون کی طرف واپس نہیں جانا چاہیے‘‘ اور ’’چینی عوام تاریخ کی درست سمت میں مضبوطی سے کھڑے ہیں، دھونس دھمکی سے خوفزدہ ہونے والے نہیں‘‘ عالمی طاقتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ چین نہ صرف اپنی خود مختاری کا دفاع کرنے کو تیار ہے بلکہ ایک متبادل عالمی نظام کی وکالت بھی کر رہا ہے۔
چین ایک ایسی طاقت بن کر ابھرا ہے جو اب صرف مشرقی ایشیا کی سیاست تک محدود نہیں، بلکہ عالمی منظر نامے پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، ڈیجیٹل سلک روڈ اور برکس جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے چین نے ترقی پذیر ممالک کو ایک نئے عالمی نظم کا متبادل فراہم کیا ہے۔
یہ نظم مغربی طاقتوں کی اجارہ داری سے آزاد اور باہمی مفادات پر مبنی ہے۔ شی جن پنگ کا وژن ’’ انسانی تقدیر کا مشترکہ مستقبل‘‘ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ چین عالمی سیاست میں شراکت داری، تعاون، اور امن کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ تاہم، اسی وژن کے پیچھے ایک ایسی سوچ بھی پنہاں ہے جو مغربی سامراجی رویوں، بالخصوص امریکی بالادستی پر مبنی عالمی نظام کو چیلنج کرتی ہے۔
شی جن پنگ کے حالیہ بیانات کو اگر موجودہ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک سفارتی مداخلت سے زیادہ ایک اسٹرٹیجک انتباہ محسوس ہوتی ہے۔ یوکرین جنگ، تائیوان کا تنازع، جنوبی بحیرہ چین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بحرالکاہل میں امریکی موجودگی نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر سرد جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اس صورتحال میں چین کی قیادت کا کہنا کہ ’’ انسانیت انتخاب کے دوراہے پر کھڑی ہے‘‘ دراصل عالمی برادری کو دعوتِ فکر ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک، جو خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد منڈیوں کے علمبردار کہتے ہیں، اکثر چین پر آمریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور توسیع پسندی کے الزامات لگاتے ہیں۔ اس کے جواب میں چین کی قیادت زور دے رہی ہے کہ ہر ملک کو اپنے نظام اور ترقی کے ماڈل کے انتخاب کا حق ہے اور کسی بھی ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنا دراصل نوآبادیاتی سوچ کی باقیات ہیں۔
’’ جنگل کے قانون‘‘ کی اصطلاح کا استعمال خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے مراد وہ عالمی سیاست ہے جہاں طاقتور کمزور کو دبانے کا حق رکھتا ہے، جہاں قوانین صرف کمزور کے لیے ہوتے ہیں اور طاقتور قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔ موجودہ عالمی منظر نامہ اگر بغور دیکھا جائے تو عراق، لیبیا، شام، اور افغانستان جیسے ممالک کی تباہی اس جنگل کے قانون کی واضح مثالیں ہیں۔ چین کی خارجہ پالیسی کا محور اس کے برعکس ہے، یعنی باہمی احترام، خود مختاری اور عدم مداخلت۔ شی جن پنگ کے مطابق دنیا کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں بین الاقوامی اصول و ضوابط سب کے لیے برابر ہوں، نہ کہ صرف طاقتوروں کے لیے۔
دنیا میں طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ مغرب، بالخصوص امریکا، جو سرد جنگ کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا، اب چین اور روس جیسے ممالک کے اتحاد اور بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے بے چین دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو، کوآڈ اور آکس جیسے عسکری اتحادوں کو فعال کیا جا رہا ہے تاکہ چین کو گھیراؤ میں رکھا جا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ صدیوں تک دنیا مغرب کے اشاروں پر چلتی رہی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت کا توازن بگڑا، نئے مرکز ابھرے۔ آج وہ مرکز مشرق ہے، کیا اس کا محور شنگھائی تعاون تنظیم ہے؟
درحقیقت دنیا ایک نئے عالمی منظر نامے کی جانب بڑھ چکی ہے، جہاں طاقت، وقار اور اثر و رسوخ کے روایتی توازن ٹوٹتے نظر آ رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ہونے والی درجہ بندیوں میں اب مغربی ممالک کی بالا دستی کو چیلنج کرنے والے عناصر سامنے آ رہے ہیں، اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی تنظیمیں ایک نئے بین الاقوامی نظم کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ موجودہ دور میں تعلیمی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں صرف اعداد و شمار کی حد تک محدود نہیں رہیں بلکہ یہ عالمی پالیسی سازی، سفارت کاری اور معاشی ترجیحات کو بھی نئی سمت دے رہی ہیں۔
اس وقت امریکا میں ٹرمپ کی پالیسیوں سے حالات مزید بدتر ہو سکتے ہیں کیونکہ بھاری درآمدی محصولات ترقی میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور افراطِ زر کو دوبارہ بھڑکا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سبز توانائی کی طرف منتقلی اور اس تبدیلی کے ممکنہ اقتصادی نتائج (جیسے ملازمتوں کا ختم ہونا یا ٹیکنالوجی میں خلل) بعض علاقوں میں بے چینی کا سبب بن سکتے ہیں، جو عدم استحکام میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب رواں برس میں یہ بے طے پائے گا کہ جغرافیائی سیاسی منظر نامہ کس طرح عدم استحکام کا ایک اہم باعث بن سکتا ہے۔ امریکا چین تعلقات، جنوبی چین سمندر میں تنازعات، تائیوان پر ممکنہ تصادم، یوکرین میں جاری جنگ اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی ایک بڑھتی ہوئی تقسیم شدہ دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امریکا، جو طویل عرصے تک ایک غالب سپرپاور رہا ہے، ایک زیادہ کثیر قطبی عالمی نظام کا سامنا کر سکتا ہے، جس میں چین اور انڈیا عالمی سیاست اور معیشت میں زیادہ اہم کردار ادا کریں گے۔ چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘ امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کر رہے ہیں۔
معاشی تعاون کے میدان میں SCO نے نئے اہداف مقرر کیے جن میں ترقیاتی بینک کا قیام، سرمایہ کاری میں اضافہ اور رکن ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو بہتر بنانا شامل ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات بظاہر مثبت ہیں، تاہم عملی میدان میں ان کی رفتار ابھی محدود ہے۔ ASEAN اور یورپی یونین جیسے علاقائی اتحادوں کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو SCO کی اقتصادی کارکردگی ابھی ان کے مقابلے میں کمزور نظر آتی ہے۔
تنظیم کے اندر پالیسی پر اتفاق رائے اور منصوبوں کی مؤثر تکمیل ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔اگرچہ SCO رکن ممالک دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور 23 فیصد عالمی GDP پر مشتمل ہیں، مگر داخلی اختلافات، سیاسی کشیدگیاں اور ادارہ جاتی کمزوریاں اس کے مؤثر کردار میں رکاوٹ ہیں۔ البتہ SCO نے دنیا کو یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ عالمی طاقت کے توازن میں ایک نیا قطب جنم لے چکا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو رواں سال عالمی درجہ بندی، علاقائی اتحادوں اور تنظیموں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ تعلیم، کھیل، خوشی، معیشت اور عالمی حکمرانی جیسے شعبوں میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ آنے والے برسوں کے عالمی منظر نامے کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مغربی ممالک کی بالا دستی کو اب چیلنج کیا جا رہا ہے اور غیر مغربی دنیا اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ عمل سست ہے لیکن اس کی سمت واضح ہے۔
ایک کثیر قطبی دنیا جس میں طاقت، علم اور اثر و رسوخ کا بٹوارہ زیادہ منصفانہ طریقے سے ہو۔ یہی وقت ہے جب ترقی پذیر ممالک کو اپنے تعلیمی، معاشی اور سفارتی ڈھانچے کو مزید مؤثر اور عالمی معیار کے مطابق بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ نیا عالمی نظام اب صرف طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعاون، علم اور پائیدار ترقی کے اصولوں پر استوار ہو رہا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور اسی نوعیت کی تنظیمیں مستقبل کی عالمی قیادت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ داخلی کمزوریوں پر قابو پا کر عملی نتائج دکھانے کی صلاحیت حاصل کریں۔ اس بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی امکانات کی نئی راہیں کھل رہی ہیں، اگر وہ دانشمندی، سفارتی بصیرت، اور قومی یکجہتی کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو مربوط کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی منظر نامے جنگل کے قانون عالمی نظام سکتے ہیں دنیا کو رہی ہیں جائے تو رہا ہے کی طرف کو ایک کے لیے
پڑھیں:
چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
بیجنگ/جنیوا: جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کی دوڑ میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں چین نے پہلی بار اقوام متحدہ کے جاری کردہ گلوبل انوویشن انڈیکس میں دنیا کے 10 سب سے زیادہ جدت پسند ممالک میں جگہ بنا لی ہے — اور اس عمل میں یورپ کی مضبوط ترین معیشت جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ ترقی بیجنگ میں نجی کمپنیوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیق و ترقی (R&D) کے شعبے میں مسلسل بھاری سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO) کی رپورٹ کے مطابق، چین اب دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق پر خرچ کرنے والا ملک بننے کے قریب ہے۔
انوویشن انڈیکس کی تازہ فہرست:
سوئٹزرلینڈ
سویڈن
امریکا
جنوبی کوریا
سنگاپور
برطانیہ
فن لینڈ
نیدرلینڈز
ڈنمارک
چین
جرمنی اس سال 11ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
WIPO کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں عالمی سطح پر درج ہونے والی پیٹنٹ (ایجادات) کی درخواستوں میں سب سے زیادہ — تقریباً 25 فیصد چین سے آئیں، جو ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس کے برعکس امریکا، جاپان اور جرمنی کی مشترکہ پیٹنٹ درخواستوں میں تقریباً 40 فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔
چین کی کامیابی کا راز
ماہرین کے مطابق، چین کی یہ ترقی اس کی نجی صنعتوں اور سرکاری اداروں کی مشترکہ حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جہاں نہ صرف مالی معاونت میں تیزی آئی بلکہ جدید ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت، اور توانائی کے شعبوں میں بھی غیر معمولی پیش رفت ہوئی۔
جرمنی کے لیے پیغام
انوویشن انڈیکس کے شریک مدیر ساچا وونش کا کہنا ہے کہ جرمنی کو 11ویں نمبر پر آنے پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ درجہ بندی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے تجارتی محصولات جیسے عوامل کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتی۔
WIPO کے ڈائریکٹر جنرل ڈیرن تانگ نے کہا کہ جرمنی کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخی صنعتی برتری کو برقرار رکھتے ہوئے، ڈیجیٹل انوویشن میں بھی ایک طاقتور مقام حاصل کرے۔
مستقبل غیر یقینی
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عالمی سطح پر انوویشن کا مستقبل کچھ غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو چکی ہے۔ اس سال عالمی ترقی کی شرح 2.3 فیصد رہنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کی 2.9 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے — اور 2010 کے بعد سب سے کم سطح ہے۔
Post Views: 2