Express News:
2025-09-17@21:44:52 GMT

پالیسی کا عدم استحکام گرین فنانس کی راہ میں رکاوٹ

اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT

کراچی:

پاکستان کی معیشت کو گہرے ساختی مسائل، بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات اور وسیع سرمایہ کاری کے خلا نے طویل المدتی استحکام کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔

حکومت کی برآمدات پر مبنی ترقی اور پائیدار ترقی کے وعدوں کے باوجود ماہرین نے خبردار کیا کہ سرمایہ کاری میں رکاوٹیں، ماحولیاتی کمزوری کا سامنا اور پائیدار کاروباری طریقوں کی کمی ملک کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی ایسوسی ایشن (ACCA) اور پاکستان بزنس کونسل (PBC) کی مشترکہ رپورٹ پائیدار فنانس، کارپوریٹ گورننس اور پالیسی فریم ورک میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پائیداری عالمی ترجیح بن چکی ہے لیکن پاکستان ابھی تک اسے اپنے معاشی ماڈل میں مؤثر طریقے سے شامل کرنے میں پیچھے ہے۔پاکستان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔

سرمایہ کاروں کا اعتماد صرف مالی خطرات پر نہیں بلکہ سیاسی استحکام اور ریگولیٹری پیش بینی پر بھی انحصار کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پائیدار سرمایہ کاری حاصل کرنا اور بھی مشکل ہے کیونکہ سرمایہ کار قلیل مدتی منافع کو طویل مدتی گرین منصوبوں کے غیر یقینی نتائج کے مقابلے میں تولتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی 2025 کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول کے لیے سرمایہ کاری کا سالانہ خلا 4 کھرب ڈالر ہے۔

پاکستان میں یہ خلا 2023 میں جی ڈی پی کے 16.

1 فیصد کے برابر تھا، جو دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ میں شمار ہوتا ہے۔پالیسی کی غیر یقینی صورتحال دباؤ کو مزید بڑھا رہی ہے جیسے جیسے عالمی تجارت میں پائیداری سے جڑی شرائط اہمیت اختیار کر رہی ہیں، پاکستان کے برآمدکنندگان کو خطرہ ہے کہ اگر مقامی طریقے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ ہوئے تو انھیں تجارتی اخراج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2050 تک جنوبی ایشیا کی 15 فیصد جی ڈی پی ماحولیاتی نقصانات کی زد میں آ سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے اس کا مطلب ہے گرین انرجی، پانی کے تحفظ اور معیشت میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا۔ بصورت دیگر بار بار آنے والی آفات محدود وسائل کو مزید دیمک کی طرح چاٹتی رہیں گی۔

کارپوریٹ سطح پر پاکستان کی کمپنیاں پائیداری کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگی ہیں۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) نے جولائی 2025 سے فہرست شدہ کمپنیوں کے لیے عالمی IFRS S1 اور S2 پائیداری ڈسکلوزر معیارات کے تدریجی نفاذ کا اعلان کیا ہے، جو ایک اہم قدم ہے مگر اس کے لیے صلاحیت سازی لازمی ہوگی۔

چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیوں کو رپورٹنگ کے اخراجات، ڈیٹا کے موازنہ کی کمی اور "گرین واشنگ" کے خطرات کا سامنا ہے، جہاں کمپنیاں ماحولیاتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔

یہ عمل سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ پاکستان نے گرین فنانس کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں جن میں اسٹیٹ بینک کی گرین بینکنگ گائیڈ لائنز (2017) اور SECP کا گرین بانڈ فریم ورک (2021) شامل ہیں۔

رپورٹ زور دیتی ہے کہ گرین سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان نے 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے اور درآمدی کوئلے پر پابندی لگانے کا ہدف رکھا ہے۔

ACCA-PBC رپورٹ کہتی ہے کہ سرمایہ کاروں، کمپنیوں اور ریگولیٹرز کے درمیان فوری تعاون ناگزیر ہے تاکہ معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

شرح سود برقرار رکھنا معیشت کیلیے رکاوٹ ہے ،سید امان شاہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-06-3

 

کوئٹہ(کامرس ڈیسک )عوام پاکستان پارٹی بلوچستان کے صوبائی کنوینئر سید امان شاہ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ غیر موزوں اور عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے لیے بھی مایوس کن ہے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ جب مہنگائی کی رفتار کم ہو رہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں ہے اور کاروباری سرگرمیوں کو سہارا دینے کی اشد ضرورت ہے، ایسے میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنا ملکی معیشت اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کی وجہ سے کاروباری قرضے مہنگے ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ مالی بوجھ بڑھنے سے نئی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہاؤسنگ، گاڑیاں اور دیگر ضروریات کے لیے قرضوں میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے، جس نے معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سید امان شاہ نے مزید کہا کہ بینکوں کی جانب سے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ نجی شعبہ قرضوں کے حصول سے محروم رہ گیا ہے، جس سے کاروباری ماحول مزید کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک اور معاشی پالیسی ساز فوری طور پر شرح سود میں کمی کریں، تاکہ کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ مانیٹری اور فِسکل پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ معیشت کو متوازن ترقی مل سکے۔SMEsاور نوجوان کاروباری افراد کے لیے رعایتی قرض اسکیمیں متعارف کروائی جائیں اور عام صارفین کے لیے بینک فنانسنگ کو سہل اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت محض احتیاط کا نہیں بلکہ جرات مندانہ اور دوراندیش فیصلوں کا ہے۔ اگر معیشت کو سانس لینے کا موقع نہ دیا گیا تو ملک طویل جمود کا شکار ہو سکتا ہے۔ سید امان شاہ نے اعلان کیا کہ وہ جلد معاشی ماہرین، کاروباری شخصیات اور صارفین کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک جامع معاشی سفارشات پیکیج تیار کریں گے تاکہ پالیسی سازوں کے سامنے عوامی آواز مؤثر انداز میں پیش کی جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ایشیا کپ: پی سی بی اور آئی سی سی میں ڈیڈ لاک ختم، قومی ٹیم اسٹیڈیم روانہ
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • جاپان اور برازیل پائیدار ایندھن کو فروغ دینے پر متفق
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لئے وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال
  • شرح سود برقرار رکھنا معیشت کیلیے رکاوٹ ہے ،سید امان شاہ
  • پشاور، اتحاد امت و استحکام پاکستان کانفرنس