امریکا کی ترجیحات میں پاکستان کا اضافہ، بھارت کی خطے میں مداخلت بے نقاب ، دی ڈپلومیٹ
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
پاکستان کی متوازن خارجہ پالیسی اور مؤثر عسکری سفارت کاری نے عالمی سطح پر اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بین الاقوامی جریدے “دی ڈپلومیٹ” کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں بدلتی ترجیحات کے تناظر میں امریکا کا جھکاؤ اب بھارت کی بجائے پاکستان کی جانب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے لیے ایک اہم پارٹنر کے طور پر ابھر رہا ہے، جب کہ بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔ خاص طور پر حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے واشنگٹن کے اندازے اور ترجیحات کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔
دی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ بدلتے حالات میں بھارت کے لیے جنوبی ایشیا میں ’’نیٹ سکیورٹی پرووائیڈر‘‘ کا کردار ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان اور امریکا کے درمیان مشترکہ مفادات میں ہم آہنگی بڑھ رہی ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کر رہی ہے۔ امریکا اب بھارت کو خطے میں متبادل پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھ رہا، اور یہ تبدیلی نئی دہلی کے لیے ایک تشویشناک علامت بن چکی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بھارت نے بلوچستان میں خفیہ مداخلت کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی، اور وہاں ٹارگٹ کلنگ کی مہم بھی چلائی۔ پاکستان کی جانب سے بارہا امن کی پیش کش کی گئی، لیکن بھارت نے ہمیشہ اس کا جواب کشیدگی بڑھا کر دیا۔
مزید برآں، مئی 2025 میں پیش آنے والے پاک بھارت تنازع نے ایٹمی تصادم کے خدشات کو بھی ہوا دی، تاہم امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ممکن بنائی۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کی مذاکرات سے مسلسل گریز کی پالیسی نہ صرف خطے کے لیے خطرناک ہے بلکہ امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات میں بھی عدم استحکام اور بے یقینی پیدا کر رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔