جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط ، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ نہ بنانے سمیت چھ سوالات کے جوابات مانگ لیے
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط ، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ نہ بنانے سمیت چھ سوالات کے جوابات مانگ لیے WhatsAppFacebookTwitter 0 5 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی کو خط ارسال کردیا جس میں انہوں نے 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل نہ دینے سمیت چھ سوالات کے جوابات مانگ لیے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی کو خط بھیجا گیا ہے جو کہ سات صفحات پر مشتمل ہے اس میں انہوں نے چیف جسٹس سے چھ سوالات کے جوابات مانگے ہیں۔پہلا سوال: پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟،دوسرا سوال: سپریم کورٹ رولز کی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟،تیسرا سوال: اختلافی نوٹ کو جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طور مشاورت کیوں کی گئی؟،چوتھا سوال: ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟،پانچواں سوال : 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر اوریجنل فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟،چھٹا سوال: ججز کو خودمختاری دینے کی بجائے آپ انہیں کنٹرولڈ فورس کے طور پر پروان چڑھا رہے ہیں؟۔
جسٹس منصور نے خط میں تحریر کیا کہ مجھے امید ہے نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب میں ان سوالات کا جواب دیا جائے گا، 8 ستمبر کو جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پر ان 6 سوالات کے جواب دیں، چیف جسٹس صاحب آپ کے بعد موسٹ سینئر جج ہونے کے ناطے ادارے کی ڈیوٹی کیلئے خط لکھ رہا ہوں۔جسٹس منصور نے لکھا کہ میں نے آپ کو متعدد خطوط لکھے لیکن آپ کی طرف سے نہ تحریری اور نہ ہی زبانی جواب ملا، عوامی سطح پر آپ کا جواب ججز اور عوام کو اعتماد دے گا، آپ کا جواب یقین دلائے گا آپ کی ریفارمز شفاف اور آئین کے مطابق ہیں، یہ نہ سمجھیں یہ کوئی ذاتی متاثرہ یا رنجیدہ شخص کا خط ہے۔
جسٹس منصور نے لکھا کہ آپ کے دور میں سب سے زیادہ 3956 مقدمات میں نے نمٹائے،آپ کے دور میں 35 رپورٹٹد فیصلے تحریر کر چکا ہوں،اکتوبر 2024 سے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ایک بھی باضابطہ میٹنگ نہیں ہوئی، بینچز بغیر مشاورت کے تشکیل دیئے جا رہے ہیں، میں ایک ذمہ دار کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔انہوں نے لکھا کہ یک طرفہ طور پر بینچز کی تشکیل اور کاز لسٹ جاری ہورہی ہے، ججز روسٹر بغیر مشاورت کے دستخط کیلئے بھیجے جاتے ہیں، سینئر ججز کو دو رکنی جبکہ جونئیر ججز کو تین رکنی بینچز کیوں دئیے جا رہے ہیں؟ قومی اہمیت کے مقدمات سینئر ججز کے سامنے کیوں مقرر نہیں کئے جا رہے؟ سینئر ججز کنٹرول کرنے کیلئے سائیڈ لائن کئے جارہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہم نے چین کے ہاتھوں بھارت اور روس کو کھو دیا، مستقبل کے لیے دعا گو ہوں، صدر ٹرمپ ہم نے چین کے ہاتھوں بھارت اور روس کو کھو دیا، مستقبل کے لیے دعا گو ہوں، صدر ٹرمپ ریاض سیزن سکس،کنگز سلام کو عالمی سطح پر نیٹ فلکس پر نشرکرنے کا اعلان وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس، نادرا میں غیر رجسٹرڈ سیلاب متاثرین کیلئے کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت علیمہ خان کو انڈہ مارنا شرمناک، گھٹیاپن اور بازاری حرکت کے سوا کچھ نہیں، سعد رفیق حکیم شہزاد شادی میں فحش مجرا کروانے پر گرفتار، سلامی کی رقم سیلاب زدگان کو دینے کا اعلان وفاقی حکومت کا عیدمیلادالنبیۖ کے موقع پر قیدیوں کی سزاوں میں کمی کا اعلانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: 26ویں ترمیم چیف جسٹس فل کورٹ
پڑھیں:
تاحیات سیکیورٹی ریٹائرڈ ججز کیلئے ہے انکی بیواؤں کے لیے نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کو تاحیات سیکیورٹی صدارتی آرڈر کے تحت ہے تاہم ان کی بیواؤں کو تاحیات سیکیورٹی نہیں جاسکتی انہیں سیکیورٹی دینے کا حوالہ خط میں غلطی سے شامل ہوا۔
سپریم کورٹ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز تاحیات سیکیورٹی کے حق دار ہیں، ریٹائرڈ ججز کو تاحیات سیکیورٹی کا حق 2018ء کے صدارتی آرڈر نمبر سات میں دیا گیا تاہم ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کی سیکیورٹی کی حد تک آرڈر واپس لیا جاتا ہے۔
وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو 2108ء کے صدارتی آرڈر نمبر سات کے تحت تاحیات سیکیورٹی نہیں دی جاسکتی، ریٹائرڈ ججز کی سیکیورٹی سے متعلق وزارت داخلہ کو خط ارسال کیا گیا تھا، ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سیکیورٹی دینے کا حوالہ خط میں غلطی سے شامل ہوا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کا حوالہ واپس لے لیا گیا ہے، ججز کی بیوائیں صدارتی آرڈر نمبر 7 کے تحت اس میں شامل نہیں۔