پاکستان میں قدرتی آفات یا انسانی غفلت؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
تحریر: اظہر لغاری
پاکستان ایک بار پھر شدید ترین قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں موسلا دھار بارشوں نے بستیاں اجاڑ دیں تو کہیں زمین کھسکنے سے پوری کی پوری آبادی مٹی کے تودوں تلے دب گئی۔
شمالی علاقوں میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، وادیوں میں کلاؤڈ برسٹ قیامت ڈھا رہے ہیں اور جنوبی علاقوں میں سیلاب نے کھڑی فصلیں تباہ کر دی ہیں۔ یہ سب محض قدرتی حادثات نہیں بلکہ ایک سخت انتباہ ہے کہ کلائمیٹ چینج اب کتابوں کی تھیوری نہیں رہا بلکہ پاکستان کی تلخ حقیقت بن چکا ہے۔
ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں پر موجود ہزاروں گلیشیئر ہماری زندگی کی شہ رگ ہیں۔ انہی سے دریاؤں میں پانی آتا ہے، انہی سے کھیت سرسبز رہتے ہیں اور انہی پر ہماری زراعت اور معیشت کھڑی ہے۔
لیکن افسوس کہ یہی گلیشیئر اب خطرناک حد تک تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اگر یہی رفتار رہی تو آنے والے برسوں میں ہمیں پانی کی قلت اور تباہ کن فلش فلڈز دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کلاؤڈ برسٹ میں چند منٹوں میں مہینوں جتنی بارش برس پڑتی ہے اور یہ پاکستان کے لیے نیا مگر جان لیوا چیلنج ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے اس تباہی سے گزر چکے ہیں۔ کچے مکانات منٹوں میں بہہ جاتے ہیں، سڑکیں، پل اور رابطہ ذرائع مٹی کے ڈھیر بن جاتے ہیں۔ یہ سب محض فطری مظاہر نہیں بلکہ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ بھی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا کہ ہم نے اپنے جنگلات کا کیا حال کیا؟ دریاؤں کے کناروں پر بے ہنگم تعمیرات کیوں کیں؟ بارش کے پانی کے نکاس کے لیے شہروں میں آج تک مؤثر نظام کیوں نہیں بنایا گیا؟ زمین کھسکنے اور لینڈ سلائیڈنگ کا بڑا سبب بے دریغ درختوں کی کٹائی اور پہاڑوں پر غیر منصوبہ بند آبادیاں ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ مگر ہم نے نہ اپنی پالیسیوں کو بدلا اور نہ ہی اپنی عادات کو۔ آج بھی ہم ماحول کو برباد کرنے والی توانائی پر انحصار کر رہے ہیں۔
آج بھی ہم پلاسٹک کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں اور آج بھی ہم شجر کاری کو دکھاوا سمجھ کر چند فوٹو سیشنز پر اکتفا کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ہم جاگ جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کلائمیٹ ایمرجنسی کا اعلان کرے، قومی سطح پر موسمیاتی پالیسی مرتب کرے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔
بڑے ڈیمز کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیمز اور واٹر ریچارجنگ سسٹمز کو ترجیح دی جائے۔ شہروں میں بارش کے پانی کے ذخیرے اور نکاسی کا نظام جدید خطوط پر استوار ہو۔ اسکول کی سطح پر بچوں کو ماحولیات کی تعلیم دی جائے تاکہ آئندہ نسلیں وہ غلطیاں نہ دہرا سکیں جو ہم نے کیں۔
اگر ہم نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو یہ طوفان، یہ سیلاب، یہ لینڈ سلائیڈنگ اور یہ کلاؤڈ برسٹس ہمارے شہروں، ہماری معیشت اور ہماری زندگیوں کو بہا لے جائیں گے۔ قدرت کی یہ پکار ہے اور اس بار خاموشی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وی نیوز کا آفیشل ویب ڈیسک اکاؤنٹ
پاکستان پاکستان میں قدرتی آفات قدرتی آفات ماحولیاتی بے حسی موسمیاتی تبدیلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان میں قدرتی ا فات قدرتی ا فات ماحولیاتی بے حسی موسمیاتی تبدیلی رہے ہیں
پڑھیں:
ترکیہ؛ ہوٹل آتشزدگی میں 78 ہلاکتیں اور 137 زخمی؛ مالک سمیت 11 افراد کو عمر قید
ترکیہ کے ایک ہوٹل میں ہونے والی آتشزدگی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی وجہ مالکان اور عملے کی غلفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں سال کے آغاز پر اس افسوسناک واقعے میں 34 بچوں سمیت 78 افراد جاں بحق اور 137 زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے کی تحقیقات کے دوران ہوٹل انتطامیہ کی غفلت سامنے آنے پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے جس پر آج عدالت نے سزا سنا دی۔
ترکیہ کی صوبائی عدالت نے 12 منزلہ ہوٹل آتشزدگی کیس میں مالک سمیت 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ہوٹل کی انتظامیہ سنگین غفلت کی مرتکب پائی گئی جس کا مرکزی ذمہ دار مالک ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ہوٹل میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں احتیاطی تدابیر کا بھی فقدان تھا اور عملہ بھی غیر تجربہ کار تھا جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
عدالت اس بات پر زور دیا کہ ہوٹل کے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے سرکاری محکموں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔