‘امریکا کیساتھ نہایت مثبت شراکت داری ہے،’ مودی کی جانب سے ٹرمپ کے بیان کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اور مودی ہمیشہ دوست رہیں گے۔
نریندر مودی نے ایکس پر امریکی صدر کے بیان کی خبر ری پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ کے جذبات اور ہمارے تعلقات کے مثبت جائزے کو ہم دل سے سراہتے ہیں اور اس کا بھرپور جواب دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور امریکا کے درمیان ایک نہایت مثبت اور مستقبل کی طرف دیکھنے والی جامع اور عالمی اسٹریٹجک شراکت داری موجود ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ہمیشہ مودی کا دوست رہوں گا، وہ ایک عظیم وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان ایک خاص تعلق ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔
Deeply appreciate and fully reciprocate President Trump's sentiments and positive assessment of our ties.
India and the US have a very positive and forward-looking Comprehensive and Global Strategic Partnership.@realDonaldTrump @POTUS https://t.co/4hLo9wBpeF
— Narendra Modi (@narendramodi) September 6, 2025
تاہم گزشتہ روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ بھارت اور روس بظاہر چین کے قریب ہوتے جا رہے ہیں جس سے دونوں ممالک گہرے اور تاریک چین کے حصے بن گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ٹرمپ نے تینوں رہنماؤں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بھارت اور روس کو کھو دیا ہے، وہ بھی سب سے گہرے اور تاریک چین کے حوالے۔ خدا کرے کہ ان کا ساتھ خوشحال اور طویل ہو۔
یہ بھی پڑھیے: ’بھارت سے خوش نہیں ہوں‘، ٹرمپ کا انڈیا پر مزید ٹیرف آئندہ 24 گھنٹوں میں لگانے کا اعلان
رائٹرز کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان اس وقت دیا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اجلاس رواں ہفتے چین کے شہر تیانجن میں منعقد ہوا تھا جس میں 20 سے زائد غیر مغربی ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ تھا کہ چین کے
پڑھیں:
فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-7
امیر محمد کلوڑ
فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔
آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔
حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔
یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔
’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔
دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔