یورپی یونین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت وارننگ کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک، گوگل پر 2.95 ارب یورو (3.47 ارب ڈالر) کا بھاری جرمانہ عائد کردیا ہے۔

یہ جرمانہ کمپنی پر اپنی اشتہاری خدمات میں مسابقت کو ختم کرنے اور مارکیٹ میں غیر منصفانہ برتری قائم رکھنے کے الزام میں کیا گیا۔

یورپی کمیشن کے مطابق گوگل نے ایڈٹیک کے شعبے میں اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا، جس سے نہ صرف پبلشرز اور مشتہرین بلکہ عام صارفین بھی متاثر ہوئے۔ اینٹی ٹرسٹ کمشنر ٹریسا ریبیرا کا کہنا تھا کہ یہ رویہ یورپی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹریسا ریبیرا نے اسی ہفتے کے آغاز میں ممکنہ امریکی جوابی اقدامات کے خوف سے جرمانے پر وقتی طور پر توقف کر دیا تھا، مگر بعد ازاں فیصلہ سختی سے نافذ کر دیا گیا۔ دوسری جانب یورپی یونین یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ امریکا جولائی میں طے پانے والے تجارتی معاہدے کے تحت کاروں پر ٹیرف میں کمی کے وعدے کو پورا کرے گا یا نہیں۔

برسلز نے گوگل کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ’’خود پسندی کے رویے‘‘ کو ترک کرے اور ایسے اقدامات کرے جو اس کے کاروباری مفادات اور مارکیٹ کے اصولوں کے درمیان ٹکراؤ کو ختم کریں۔ کمیشن نے کمپنی کو 60 دن کی مہلت دی ہے تاکہ وہ بتا سکے کہ یہ تبدیلیاں کس طرح لائی جائیں گی۔ ٹریسا ریبیرا نے عندیہ دیا کہ اس مسئلے کا مؤثر حل شاید یہی ہو کہ گوگل اپنے ایڈ ٹیک کاروبار کا کچھ حصہ فروخت کرے۔

دوسری جانب گوگل نے یورپی یونین کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کے عالمی سربراہ برائے ریگولیٹری امور، لی-این ملہولینڈ نے کہا کہ یہ جرمانہ بلاجواز ہے اور ایسی تبدیلیاں ہزاروں یورپی کاروباروں کو نقصان پہنچائیں گی، کیونکہ اس سے ان کے لیے آمدنی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گوگل کی سروسز بالکل مسابقتی ہیں اور اب ان کے متبادل پہلے سے کہیں زیادہ دستیاب ہیں۔

یہ فیصلہ نہ صرف یورپ اور امریکا کے درمیان تجارتی تعلقات پر دباؤ ڈال سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ڈیجیٹل مارکیٹ کے ضوابط اور ٹیک کمپنیوں کے اثر و رسوخ پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی یونین

پڑھیں:

اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں

اسرائیل اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں گوگل اور ایمازون کے درمیان 2021ء میں طے پانے والے اربوں ڈالر کے ’پروجیکٹ نیمبس‘ معاہدے کی خفیہ تفصیلات منظرِ عام پر آگئی ہیں۔

یہ بھی

اس انکشافات کے مطابق اسرائیل نے ان کمپنیوں کو اپنے ہی سروس معاہدوں اور قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی پر مجبور کیا ہے۔

رشیا ٹوڈے کے مطابق 1.2 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے میں ایک شق شامل ہے جو گوگل اور ایمازون کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اسرائیلی حکومت کی کلاؤڈ سروسز تک رسائی محدود کر سکیں، چاہے وہ ان کے ’ٹرمز آف سروس‘ کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرے۔

ونکنگ میکانزم‘ کے ذریعے خفیہ اطلاع کا نظام

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی عدالت یا حکومت اسرائیل کے ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کرے، تو گوگل یا ایمازون اسرائیل کو ایک مخصوص مالی اشارے کے ذریعے خفیہ طور پر آگاہ کریں۔

اس طریقہ کار کو ’ونکنگ میکانزم‘ کہا گیا ہے، جس کے تحت کمپنی اسرائیل کو 1000 سے 9999 شیکل کے درمیان رقم ادا کرتی ہے۔ جس کا ہندسہ متعلقہ ملک کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ کے برابر ہوتا ہے۔

اس نظام کے ذریعے اسرائیل کو غیر ملکی ڈیٹا درخواستوں کی خفیہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو عام حالات میں سخت رازداری کے زمرے میں آتی ہیں۔

معاہدہ منسوخ کرنے پر بھاری جرمانے

معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گوگل یا ایمازون نے اسرائیل کو سروس فراہم کرنا بند کیا، تو انہیں بھاری مالی جرمانے ادا کرنے ہوں گے۔

اسرائیلی حکومت کو ان سروسز کے غیر محدود استعمال کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اسرائیلی قوانین یا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہ کرے۔

یہ شق خاص طور پر اس امکان کے پیشِ نظر شامل کی گئی کہ اگر کمپنیوں پر ملازمین، شیئر ہولڈرز یا انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے دباؤ بڑھا تو بھی اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہ ہوں۔

گوگل ملازمین کے احتجاج اور برطرفیاں

گزشتہ 2 برسوں کے دوران گوگل کے درجنوں ملازمین نے اسرائیل کے ساتھ کمپنی کے تعلقات کے خلاف احتجاج کیا۔ اپریل 2024 میں گوگل نے ایسے 30 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا جن پر کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔

بعد ازاں جولائی 2025 میں گوگل کے شریک بانی سرگے برن نے اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا کہ وہ کھلم کھلا یہودی مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، بشمول گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ، غزہ جنگ سے منافع حاصل کر رہی ہیں۔

یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیل کے 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے فوجی اقدامات کو نسل کشی (Genocide) قرار دے چکی ہیں، جن میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ’پروجیکٹ نیمبس‘ اسرائیل کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر امریکی کلاؤڈ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے، جس سے انسانی حقوق کے ماہرین اور ڈیجیٹل آزادی کے حامیوں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ بدلے گا نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • جرمن چانسلر  کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
  • امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مختلف ممالک پر عائد ٹیرف کو مسترد کردیا
  • اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں
  • امریکی صدر نے ولادیمیر پیوٹن کے اتحادی پر عائد پابندیاں ختم کردیں
  • اب ڈونلڈ ٹرمپ کہاں ہے جو کہتا تھا میں نے غزہ میں جنگ بند کرائی، مولانا فضل الرحمان
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں حملے، ٹرمپ کہاں ہے؟ مولانا فضل الرحمن
  • ایران چین کی مدد سے میزائل پروگرام پھر فعال کررہا ہے: یورپی انٹیلی جنس کا انکشاف
  • قومی ایئرلائن پی آئی اے یورپی یونین کے کارگو آڈٹ میں کامیاب