گڈز کیریئرز ایسوسی ایشن نے کچے میں 11 ڈرائیوروں کے اغوا کے بعد پاک فوج سے ٹرانسپورٹ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی گڈز کیرئیرز ایسوسی ایشن  کے قائم مقام صدر سفیرشاہین اور جنرل سیکرٹری ندیم اختر آرائیں نے کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ملکی معیشت کو کسی قسم کا نقصان پہنچائیں  تاہم اگر مال بردار ٹرانسپورٹ کو تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ہم انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوںگے۔

انہوں نے بتایا کہ کشمور کے قریب 11 ڈرائیوروں کے اغوا سے پاکستان بھر کی ٹرانسپوررٹ برادری میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے، ٹرک، مال بردار ٹرالرزڈرائیوروں اور ان کے اسٹاف کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

گڈز ٹرانسپورٹ کے صدر نے کہا کہ پاک فوج ہمیں تحفظ دے اور کچے کے ان ڈاکوؤں اور دیگر قومی شاہراہوں پر ڈکیتوں کے خلاف بھر پور ایکشن لیکر پاکستان کی ترانسپورٹ برادری کو تحفظ فراہم کرے۔

سفیر شاہین اور ندیم اختر آرائیں نے کہا کہ 4 ستمبر کو موٹروے پر کشمور کے قریب 11 ڈرائیوروں کو اغوا کیا گیا ہے، جس کے بعد یہ سمجھ آگیا ہے کہ امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا اب حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ جس کا جہاں دل کرتا ہے جس طرح دل کرتا ہے وہ روڈ پر آ کرمال بردار گاڑیوں نقصان پہنچاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کشمور میں ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور کئی گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ دیے۔ ایک ٹائروں کی جوڑی کی قیمت ایک لاکھ 80 ہزار روپے ہے اور ایک گاڑی میں 11 جوڑیاں ہوتی ہیں اور چند گاڑیوں کے مکمل ٹائر جو ہیں وہ تباہ کر دیے گئے۔

قائم مقام صدر کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں نے 11 ڈرائیورز اور اسٹاف ممبران کو اغوا کر کے بڑی دیدہ دلیری سے اپنا ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق اگر ان کے طلب کردہ ساتھیوں کو نہ چھوڑا گیا تو ڈرائیوروں کو قتل کر کے ان کی لاشیں حکومت کے حوالے کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ،راولپنڈی ،فیصل اباد، گجرانوالہ، مظفرگڑھ، ملتان ،ساہیوال سمیت تمام ایسوسی ایشن اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہمارے ڈرائیوروں کو تحفظ نہیں ملتا تو پھر ہم راست اقدام کرنے  پر مجبور ہوںگے، اگر ہمارے کسی بھی ڈرائیور کو نقصان پہنچا اور حکومت انہیں بازیاب کرانے میں کسی طریقے سے بھی ناکام ہوئی تو پھر پاکستان کے اندر معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ہمارا جو کردار ہے ہم اس پہ غور و فکر کر کے اپنے کاروبار کو بند کرنے کے بارے میں مشاورت کریں گے۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کو تحفظ نے کہا

پڑھیں:

ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات

اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔

جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔

وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر، دہشتگردوں نے جرگہ مذاکرات پر مغوی پولیس اہلکار کو رہا کردیا
  • خیبر،جرگہ مذاکرات، دہشتگردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت کردی
  • کراچی پولیس کے ڈرائیوروں کے لیے ای ٹکٹنگ تربیتی مہم کا آغاز
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27 ویں ترمیم کی حمایت کردی
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • کراچی کے ایک اور نوجوان کو کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا، 2 کروڑ روپے تاوان طلب