سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلیے امداد نہ لینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کیلیے بیرونی امداد نہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ماہانہ ترقیاتی رپورٹ کے اجرا کے دوران پریس کانفرنس میں وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے اعلان کیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو پاکستان اپنے مالی وسائل سے کرے گا، اس کیلیے بیرونی امداد نہیں لی جائیگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سیلاب سے فصلوں، گھروں اور انفرااسٹرکچر کو نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے بعد بحالی اور تعمیر نوکی ضروریات کا اندازہ لگایا جائیگا۔
انہوں نے کہا کہ نقصانات کا حقیقی تخمینہ سیلاب اترنے کے بعد لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے تاثر کی تردید کی کہ تین سال قبل جنیوا میں6.
انہوں نے کہا کہ منصوبوں کی تکمیل میں وقت لگتا ہے، قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی3.7 ارب ڈالر کے منصوبوں کی منظوری دے چکی ہے۔
کالا باغ ڈیم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ قومی اتفاق رائے کے بغیر کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کی جائنٹ کوآپریشن کمیٹی کا 14واں اجلاس26 ستمبر کو ہو گا جس میںقراقرم ہائی وے فیزٹو کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کے معاہدہ دستخط متوقع ہیں،چین منصوبے کی لاگت کا 85 فیصد بطور قرض دے گا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ مین لائن ون منصوبہ کیلئے چین فنڈنگ سی پیک فریم ورک کا حصہ نہیں، تاہم دونوں ملکوں نے مین لائن ون منصوبے کیلئے کثیر جہتی فنڈنگ کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا ہے، ایک منصوبے کیلئے چینی ایکزم بینک سے مزید قرضے لینا مناسب نہیں جو پہلے ہی ہر سال پرانے قرضے رول اوور کر رہا ہے۔
تاہم چین ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے اس منصوبے کلئے قرض حاصل میں تعاون کرے گا۔
انہوں نے پی ٹی آئی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مین لائن ون منصوبے میں تاخیر اور سکھر حیدرآباد موٹروے کو موخر کرنے کی ذمہ دار ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 9200 کے قریب مکانات تباہ،671 کلو میٹر سڑکیں سیلابی پانی میں بہہ گئیں،239 پل منہدم ہوئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سیلاب سے
پڑھیں:
سندھیانی تحریک کا سندھ بچائو مارچ کیلیے آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھیانی تحریک کی جانب سے 16 نومبر کو حیدرآباد میں اعلان کردہ‘‘سندھ کا وجود اور وسائل بچاؤ مارچ’’کے سلسلے میں سندھ بھر میں عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مختلف دیہاتوں اور شہروں کے دوروں کا شیڈول بھی ترتیب دے دیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر عمرہ سموں، مرکزی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ماروی سندھُو، مرکزی رہنما حسنہ راہوجو، شمشاد لغاری، ساجدہ اور ایڈووکیٹ ریحانہ جتوئی نے اپنے مشترکہ پریس بیان میں کیا۔رہنماؤں نے کہا کہ سندھ کی تقسیم، کارپوریٹ فارمنگ، نہروں، معدنی وسائل پر قبضوں، قبائلی دہشت گردی، کاروکاری اور عورتوں پر ظلم کے خلاف 16 نومبر کو سٹی گیٹ سے حیدرآباد پریس کلب تک ہزاروں سندھیانیاں مارچ کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کو نئے صوبے بنانے کا اختیار دیا جا رہا ہے، جو مظلوم قوموں کے وجود کو مٹانے کی سازش ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا آرڈیننس ترمیمی ایکٹ جیسے سیاہ قوانین کے ذریعے عدلیہ اور میڈیا کو قید کرنے کے بعد اب پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کر 27ویں ترمیم لائی جا رہی ہے، جو‘‘ون یونٹ’’سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سندھی قوم اپنی سرزمین کی تقسیم ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور 27ویں ترمیم، کارپوریٹ فارمنگ سمیت تمام سندھ دشمن منصوبوں کے خلاف جدوجہد کی جائے گی۔رہنماؤں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کے جاگیرداروں کی نمائندگی کرتے ہوئے صوبے میں آئین و قانون کو معطل کر چکی ہے۔ قبائلی سرداروں کی سرپرستی میں ڈاکو راج قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ‘‘کچے کے ڈاکوؤں کی سرنڈر ڈرامہ’’سندھ کے امن و امان کو مزید تباہ کرنے کی سازش ہے۔ نیٹو کے اسمگل شدہ جدید اسلحہ اب بھی ڈاکوؤں کے پاس موجود ہیں۔ سندھ کے وزیر داخلہ وضاحت کریں کہ ڈاکوؤں سے جدید اسلحہ کیوں نہیں لیا گیا؟ رہنماؤں نے کہا کہ حکمران جماعت کے قبائلی سردار ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں جن کے کہنے پر یہ سرنڈر ڈرامہ رچایا گیا تاکہ عوام کی امن و بحالی کی جدوجہد کو ختم کیا جا سکے۔