قافلۂ عزم وہمّت سلامت رہے
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
اس عالمِ رنگ وبو میں بسنے والے انسانوں کی اکثریّت کا ضمیر صدیوں پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ سویا ہوا، کمزور اور مردہ۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ حق کے ساتھ پہلے بھی مٹھی بھر افراد ہی کھڑے ہوتے تھے۔ آج بھی انبوہِ کثیر اقتدار کی چھاؤں میں ہی نظر آتا ہے۔
چودہ صدیاں قبل انسانوں کے ایمان اور ضمیر کی امتحان گاہ کربلا بنی تھی۔آج کی کربلا پیغمبروں کی سرزمین فلسطین کے علاقے غزہ میں سجی ہے۔ آج مظلومینِ ارض فلسطین کے ساتھ ظلم کے جو جو طریقے استعمال ہورہے ہیں اور درندگی اور شیطانیت کے جو جو حربے آزمائے جارہے ہیں، وہ انسانی تاریخ نے اس سے پہلے نہ دیکھے تھے اور نہ سنے تھے۔
یورپ کے عیسائی اور یہودی صحافی بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں کی پوری نسل کو بھوک کے ہتھیار سے ہلاک کیا جارہا ہے۔ 20لاکھ آبادی کے شہر غزہ میں ستّر ہزار انسان شہید ہوچکے ہیں۔ ایک لاکھ ستّر ہزار زخمی ہیں، تیس ہزار سے زائد معصوم بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔ اور اب ہر روز سیکڑوں بچے، عورتیں اور مرد بھوک اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
کشمیر کے معروف صحافی افتخار گیلانی صاحب ان رائٹرز میں سے ہیں جن کے غزہ کے اندر بھی رابطے قائم رہے ہیں۔ وہ یہاں ترجمان القرآن سمیت کئی اخبارات و رسائل میں لکھتے ہیں، اپنے تازہ مضمون میں انھوں نے دل چیر دینے والے واقعات لکھے ہیں۔ لکھتے ہیں’’میں نے غزہ میں ایک صحافی اور سول سوسائٹی سے وابستہ دوست کو فون کیا جس کے ساتھ پچھلے دو برسوں سے ایک تعلق بن چکا تھا۔ کئی بار میسج بھیجنے کے بعد جب اس نے فون اٹھایا تو اس کی آواز لرز رہی تھی، اس کے الفاظ تھے ’’برادر، تین دن سے بھوکا ہوں، اس لیے بولنے کی سکت نہیں۔ جیسے ہی کہیں سے روٹی کا ایک ٹکڑا ملتا ہے تو آپ کو فون کروں گا‘‘پھر اس کا فون کبھی نہیں آیا نہ ہی میں نے انھیں کال کرنے کی جرات کی‘‘۔
اس کے بعد لکھتے ہیں ’’غزہ کا منظر نامہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ اب غزہ کی رپورٹنگ اسرائیل کی بربریّت یا جنگ بندی کے بارے میں نہیں۔ اب یہ بھوک کے بارے میں ہے۔ اب یہ پوری دنیا سمیت اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے شرم سے عاری رویّوں کے بارے میں ہے۔ آج کا غزہ صرف بارود اور زخموں کی کہانی نہیں بلکہ بھوک اور قحط سالی کی کہانی بھی ہے جو بے بس انسانوں پر زور زبردستی اور جبر سے مسلّط کی گئی ہے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں "میں نے 28 سالہ ابو رمضان سے بات کی جو غزہ کے شہر النصر کے رہائشی ہیں، میں نے پوچھ لیا کہ آج آپ کیا کھائیں گے تو ان کا جواب تھا ، ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔
کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا اور کبھی بالکل کچھ نہیں۔ جب پوچھا گیا کہ بھوک کی کیفیت کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟ تو وہ لمحہ بھر رکے اور پھر نحیف آواز میں کہا ، یہ ایسا ہی ہے جیسے دل میں خنجر مار دیا جائے۔ آپ بچوں کو بھوک سے بلکتے، تڑپتے اور روتے دیکھتے ہیں مگر انھیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کرپاتے۔ تسلّی کا کوئی لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ بس خاموشی رہ جاتی ہے چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں، بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب کھانا تیّار ہوجائے گا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز موت کے پھندے ہیں۔ جب ہم وہاں جاتے ہیں تو بھروسا نہیں ہوتا کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے یا نہیں یا آٹے کا سفید تھیلا لے کر آؤ گے یا سفید کفن کی تلاش میں اپنی لاش چھوڑ کر آؤ گے مگر اس کے باوجود سانس برقرار رکھنے کے لیے وہاں جانا پڑتا ہے۔ اور کوئی راستہ نہیں، اور کسی کی امداد پہنچنے ہی نہیں دیتے‘‘۔ Doctors with-out borders کی ایک تازہ رپورٹ میں غزہ ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کو جو امریکی اور اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے، ظلم کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر 1800 ہلاکتیں درج کی گئیں اور سو بچوں کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ امدادی مراکز ذلّت کے میدان بن چکے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں کہ پیغام صاف ہے۔ ’’بھوکے مرو یا کھانے کے لیے کوشش کرتے ہوئے مرو‘‘۔
غزہ میں بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے، اسرائیلی ٹرک روٹیاں لاتے ہیں اور انھیں جاں بلب اور بھوک سے لاچار آبادی کے سامنے پھینک کر تماشا دیکھا جاتا ہے۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا دل چاہے تو وہ فائرنگ شروع کردیتا ہے۔ انسانیت کی اتنی تذلیل کبھی نہیں سنی۔ ابو رمضان کہتے ہیں ’’ہم سب موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں مگر اس کے باوجود انسانوں میں بھلائی باقی ہے اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو تو وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے۔
ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں، اگر ایک شہید ہوجائے تو دوسرا دونوں گھروں کے لیے روٹی لے آتا ہے۔ اب زندہ رہنے کے لیے بچا ہی کیا ہے، اب زندگی کا تصور ہی چھین لیا گیا ہے۔افسوس یہ ہے کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورتِ حال کا ادراک نہیں، اگر ہوتا تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی‘‘۔ افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ میں نے جب پوچھا کہ آپ کا دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ تو انھوں نے تلخ لہجے میں کہا ’’دنیا والوں سے کہیں کہ جاگ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر افسوس کرے‘‘
تاریخ تو اپنا فیصلہ صادر کرچکی ہے اور ان ملکوں کے حکمرانوں کو مجرم سمجھتی ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کو تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں مگر بے نیاز ہیں جیسے وہ انسان نہیں پتھر ہوں۔ کتنے سالوں سے امریکا اور یورپ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئین بن کر دنیا کو انسانی حقوق کے سبق پڑھارہے تھے مگر غزہ نے ان کے سارے نقاب نوچ ڈالے ہیں اور دنیا کو ان کی اصلیّت دکھا دی ہے۔ جو سلوک دنیا کے چوہدریوں اور مسلمان حکمرانوں نے غزہ کے معصوم بچوں، ماؤں، بیماروں اور زخمیوں کے ساتھ روا رکھا ہے، اس کے بعد ڈکشنریوں سے حقوق اور انسانیت کے الفاظ نکال دینے چاہئیں۔ اور امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ پر پابندی لگ جانی چاہیے کہ ان کی کسی کارروائی میں انسانیت اور انسانی حقوق کے الفاظ نہیں بولے جاسکیں گے۔ جو ملک معصوم بچوں کے قاتلوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور جو بچوں کو سروں پر مارنے والی گولیاں مہیّا کرتے ہیں انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کی زبانوں سے انسانیت کا لفظ ادا ہو۔
پاکستانی قوم بھی دوسروں کی طرح بلکہ کچھ زیادہ ہی بے حسی کا شکار رہی ہے۔ ان حالات میں مظلومینِ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے اور ان کے لیے خوراک اور ادویات لے کر جانے والا عالمی صمود فلوٹیلا (صمود کا مطلب استقامت ہے اور فلوٹیلا کشتیوں کے قافلے کو کہتے ہیں) جو ستّر کشتیوں پر مشتمل ہے، موسمی خطرات اور اسرائیلی حملوں سے بے پرواہ ہو کر غزہ کی جانب رواں دواں ہے، بلاشبہ یہ کاروانِ عزم وہمّت امید اور حوصلے کا وہ چراغ ہے جس کی کرنیں پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ بے حسی اور مفاد پرستی کے اس دور میں بھی انسانیّت زندہ ہے۔
اس کاروانِ استقلال میں 45 ملکوں کے افراد شامل ہیں جو زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت سابق سینیٹر مشتاق احمد صاحب کررہے ہیں جو بلاشبہ پوری قوم کی تحسین اور دعاؤں کے مستحق ہیں۔ یہ قافلۂ عزم و استقلال غزہ کا محاصرہ توڑ کر مظلومین تک پہنچنے کی کوشش کرے گا تاکہ انھیں خوراک اور ادویات پہنچا سکے۔ ایسے قافلے تب سمندر میں اترتے ہیں جب حکمران بے حس ہوں اور اپنی ذمے داریوں سے غافل ہوجائیں۔ یہ معلوم نہیں کہ انسانیت کے بے لوث خیر خواہوں کا یہ قافلہ منزل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں (یہ بھی خبر ہے کہ قیادت کرنے والی کشتی پر اسرائیل نے ڈرون سے حملہ کیا ہے) مگر اس نے دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر پر دستک ضرور دی ہے اور گہری بے حسی کے اندھیروں میں انسانی ہمدردی کا چراغ روشن کردیا ہے۔
اس فلوٹیلا نے ایسی اذان بلند کی ہے جس نے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کے درودیوار ہلادیے ہیں۔ دنیا بھر میں رنگ، نسل، علاقے اور مذہب سے بالاتر ہو کر گلوبل صمود فلوٹیلا کی سلامتی اور کامیابی کی دعائیں کی جارہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا فرض ہے کہ انسانیت کے ناطے اس قافلے کی سیکیوریٹی کی یقینی بنائے اور انھیں بھوک اور بیماری سے مرتے ہوئے انسانوں تک پہنچنے میں مدد کرے تاکہ وہ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے منتظر انسانوں تک خوراک اور دوائیں پہنچا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی نہیں دنیا کے دنیا کو کے ساتھ ہیں اور بچوں کو رہے ہیں ہیں کہ گیا ہے غزہ کے اور ان بھی نہ کے لیے اور اس
پڑھیں:
اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
ویب ڈیسک : پاکستان سمیت دنیا بھر میں اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج 16 ستمبر کو منایا جا رہاہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 دسمبر 1994 کو اعلان کیا کہ ہر سال 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن منایا جائے گا۔
1974میں امریکی کیمیا دانوں نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو 75 برسوں میں اوزون کی تہہ کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نےڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو معطل کر دیا
اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر غرق آب ہوجائیں گے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ا وزون کے خاتمے سے نہ صرف زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گلیئشرپگھل رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی پر بھی اس کے مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔