فرانس میں ’سب کچھ بلاک کرو‘ احتجاجی تحریک کی لہر، صدر میکرون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
فرانس میں بیوروکریسی اور سیاسی ڈھانچے پر عوامی بے اعتمادی، معاشی ناانصافیوں اور بجٹ کٹوتیوں کے خلاف شدید ردِعمل کے پیشِ نظر ’سب کچھ بلاک کرو‘ کے نام سے احتجاجی تحریک میں شدت آ گئی ہے، اور صدر میکرون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
بدھ کے روز شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے دوران فرانس بھر میں مظاہرین نے سڑکوں اور گیس اسٹیشنز کو بلاک کرتے ہوئے جگہ جگہ آگ لگائی۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس: پینشن کی عمر میں اضافے کے بل کے خلاف نواں ملک گیر احتجاج
حکام نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے 80 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور درجنوں گرفتاریاں کیں۔
’سب کچھ بلاک کرو‘ کے نام سے یہ تحریک رواں موسم گرما میں آن لائن انتہائی دائیں بازو کے حلقوں میں ابھری تھی لیکن جلد ہی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل گئی اور بائیں بازو کے گروپس نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اب اس میں فرانس کی انتہائی بائیں بازو کی جماعتیں اور طاقتور لیبر یونینز بھی شامل ہوگئی ہیں۔
یہ مشترکہ احتجاج فرانس میں بڑھتی ہوئی سیاسی ہلچل میں مزید اضافہ کررہا ہے، جو اس ہفتے کے آغاز میں صدر ایمانوئل میکرون کی حکومت کے بجٹ کٹوتیوں کے خلاف ردعمل اور سیاسی اشرافیہ سے عوامی ناراضی کے سبب سامنے آیا۔
لیون، مارسی، اور ٹولوز سمیت کئی بڑے شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں جبکہ شمالی فرانس میں ایمیزون کے ایک ڈپو کا داخلہ بھی بلاک کردیا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی یونین نے دعویٰ کیا کہ پورے ملک میں قریباً 715 مقامات پر رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔
دارالحکومت پیرس میں بھی مظاہرین مختلف داخلی راستوں پر جمع ہوکر رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔ یہ مظاہرے پورے دن جاری رہنے کی توقع ہے جبکہ بعض بڑی ٹرانسپورٹ یونینز کی ہڑتال میں شمولیت کے باعث سفری نظام بھی متاثر رہا۔
سینکڑوں افراد نے شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن ’گار دو نور‘ کے باہر دھرنا جاری رکھا، حالانکہ پولیس نے پہلے ہی آنسو گیس استعمال کر کے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی تھی۔ مظاہرین کے نعرے تھے: ’ہم یہاں ہیں، چاہے میکرون ہمیں نہ چاہے، ہم یہاں ہیں۔‘
مشرقی پیرس کے ایک ہائی اسکول کے باہر بھی ڈرامائی مناظر دیکھنے کو ملے، جہاں پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپ ہوئی جنہوں نے اسکول کے داخلی دروازے بند کر دیے تھے۔
نوجوانوں کے گروپ ’لے پوئنگ لیوے‘ کی ترجمان آریان انیمویانِس نے میڈیا کو بتایاکہ پولیس نے ایک دروازہ زبردستی کھول کر طلبہ کو اندر جانے دیا، اس دوران آنسو گیس کے استعمال سے تشدد بھی ہوا۔
ان کے مطابق اس سے پہلے ہائی اسکول کے قریب ٹرانسپورٹ ورکرز کی جانب سے کی گئی ہڑتال کو بھی پولیس نے توڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ کئی سو افراد ورکرز کے حق میں پہنچے تھے لیکن پولیس نے لائن توڑ کر ہڑتال ختم کرائی۔
فرانس میں عوامی غصہ اس وقت بھڑکا جب اُس وقت کے وزیراعظم فرانسا بےرو نے 50 ارب ڈالر سے زیادہ بجٹ کٹوتیوں کا منصوبہ پیش کیا۔ ان میں دو قومی تعطیلات ختم کرنے، 2026 تک پینشن منجمد کرنے اور اربوں ڈالر کی ہیلتھ کیئر فنڈنگ میں کمی کی تجاویز شامل تھیں۔
پیر کے روز اسمبلی میں سیاسی مخالفین نے ان بجٹ کٹوتیوں کی مخالفت میں متحد ہو کر عدم اعتماد کی ووٹنگ کرائی، جس کے نتیجے میں حکومت گرگئی۔
اگرچہ بےرو اب مستعفی ہو چکے ہیں لیکن اُن کے تجویز کردہ کفایت شعاری منصوبے اور حکومت پر عدم اعتماد کی لہر بدستور برقرار ہے۔ کئی حلقے اب صدر میکرون کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں، حالانکہ ان کی مدت صدارت 2027 میں مکمل ہونی ہے۔
صدر میکرون نے منگل کے روز ڈھائی سال سے بھی کم عرصے میں اپنا پانچواں وزیراعظم مقرر کیا، جو ان کے قریبی ساتھی سباستیان لیکورنو ہیں۔ لیکورنو نے بدھ کو حلف برداری کی تقریب میں وعدہ کیا کہ وہ بڑے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور ساتھ ہی کہاکہ تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مودی کو کینیڈا میں ہزیمت کا سامنا، سکھوں اور کشمیریوں نے احتجاج کرکے دنیا کے سامنے رسوا کردیا
مظاہروں سے ایک روز قبل سبکدوش ہونے والے وزیر داخلہ برونو ریٹایو نے کہا تھا کہ تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا اور انہوں نے 80 ہزار پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا۔
یہ طاقت کا ایسا مظاہرہ ہے جو 2018 میں ’ییلو ویسٹ‘ تحریک کے عروج کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے، جو صدر میکرون کے تجویز کردہ فیول ٹیکس کے خلاف شروع ہوئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews احتجاجی تحریک کی لہر احتجاجی مظاہرین سب کچھ بلاک کرو سیاسی اشرافیہ صدر میکرون فرانس احتجاجی مستعفی ہونے کا مطالبہ مشترکہ احتجاج وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احتجاجی تحریک کی لہر احتجاجی مظاہرین سیاسی اشرافیہ صدر میکرون مستعفی ہونے کا مطالبہ مشترکہ احتجاج وی نیوز مستعفی ہونے کا مطالبہ احتجاجی تحریک بجٹ کٹوتیوں صدر میکرون پولیس نے کے خلاف
پڑھیں:
سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 ستمبر 2025ء ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہےکہ سندھ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ممالک امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلز پارٹی کو اس بیانیے میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ پنجاب حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے اور وفاق یا کسی دوسری تنظیم سے کسی قسم کی امداد کی طرف نہیں دیکھا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ متاثرہ علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے۔
اس وقت ہمارا فوکس صرف عوامی خدمت ہے، اسی لیے ہم سیاسی تلخیوں کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ منظور چوہدری اور حسن مرتضیٰ اپنے دکھ اور فلسفے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔ سندھ میں سیلاب سے کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک امداد لینے پر مجبور کر رہی ہے جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے رہنماؤں کو پہلے سندھ کے عوام کے مسائل کی فکر کرنی چاہیے، جہاں 2022 کے سیلاب متاثرین آج تک امداد کے منتظر ہیں۔