پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کراچی میں بارشوں کے بعد صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

مسلم لیگ ن سندھ کے ترجمان اسد عثمانی نے نے اپنے ایک بار میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ مراد علی شاہ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنی  گریبان میں جھانکیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا 18 سالہ دور ناقص کارکردگی سے بھرا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سندھ اور کراچی تباہی وبربادی ہے۔

اسد عثمانی نے کہا کہ سندھ حکومت نے کرپشن میں بھی ریکارڈ توڑ دیے، شاہراہ  بھٹو کا بارش میں بہہ جانا کرپشن کی اعلی مثال اور پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اسد عثمانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے توذوالفقارعلی  بھٹو کے نام کا بھی مذاق بنوا دیا، کراچی میں تباہی  بارش کے پانی نے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی نااہلی نے مچائی ہے۔

ترجمان ن لیگ سندھ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اگر کرپشن نہ کی ہوتی تو کراچی کا یہ حال نہ ہوتا، کراچی ملک کا سب بڑا  میٹروپولیٹن شہر ہے حالیہ بارشوں کے بعد یہ بات صرف لطیفہ لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور کراچی کی تباہی کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی کارکردگی نے کہا کہ پارٹی کی

پڑھیں:

سیلاب

نجمہ کی عمر تقریباً 25 سال ہوگی۔ وہ کم عمری میں چار بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کی بیوہ ماں کراچی کے معروف علاقے پی ای سی ایچ ایس میں گھروں میں کام کرتی تھی۔ پی ای سی ایچ ایس کی ایک معزز خاتون استاد نے نجمہ کو اپنے ساتھ اپنے اسکول لے جانا شروع کیا، یوں اس نے میٹرک پاس کر لیا۔ ماں نے اپنے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کردی، یوں وہ کراچی سے اپنے گاؤں جلال پور پیر والا میں منتقل ہوگئی تھی۔

نجمہ کا شوہر کا کوئی مستقل روزگار نہیں تھا اور بیوی پر تشدد کرنے میں زیادہ وقت گزارتا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کی معزز استانی اپنی شاگرد نجمہ کی گاہے بگاہے مدد کرتی رہتی تھی۔ اسے مزید تعلیم کا شوق تھا مگر شوہر کی مرضی نہ ہونے اور گھریلو مصروفیات کی بناء پر اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ نجمہ کا آخری ایس ایم ایس یہ ملا تھا کہ اس کا گاؤں سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے اور گھرکا سامان سیلابی پانی ساتھ لے گیا ہے اور کوئی مدد کو نہیں آرہا ہے، پھر نجمہ اور اس کے بچوں پر کیا گزری کوئی نہیں جانتا۔

نجمہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد سیلابی سانحہ سے گزرے۔ ایک عورت نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چھوٹی سی لکڑی کی کشتی بنالی، عورت ڈوب گئی، امدادی کارکنوں نے بچوں کو بچا لیا۔ ایک شخص اپنی پانچ سالہ بچی کو کندھے پر بٹھائے کئی گھنٹے تک ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا رہا، امدادی کارکن اس کی مدد کو پہنچ گئے۔

جلال پور پیر والا ملتان کی ایک تحصیل ہے۔یہ ملتان شہر سے 98 کلومیٹر فاصلہ پر ہے اور ملتان سے جلال پور پیر والا آنے میں ایک گھنٹہ سے زائد کا وقت لگتا ہے۔ اس کا دوسرا قریبی شہر بہاولپور ہے جو 69.5 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور یہاں تک آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ جلال پور پیر والا کی آبادی 6 لاکھ 8 ہزار افراد اور 15 یونین کونسلز ہیں۔ لوگوں کا روزگار زراعت اور زرعی اشیاء کی تجارت ہے۔ یہاںکے بہت سے افراد نے روزگار کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کیا اور زیادہ تعلیم یافتہ افراد امریکا اور کینیڈا بھی منتقل ہوئے۔

 2023کی مردم شماری کے مطابق جلال پور پیر والا تحصیل کا مکمل رقبہ 978 مربع کلومیٹر اور خواندگی کی شرح 48 فیصد ہے جب کہ عورتوں میں خواندگی کا تناسب 28.60 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 3 لاکھ4 ہزار 65 افراد میں سے 1 لاکھ 75 ہزار 919 خواتین ناخواندہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونانی بادشاہ اسکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اس علاقے میں قیام کیا تھا مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلال پور پیر والا کا نام یہاں کے معروف بزرگ جلال الدین سرخ پوش بخاری کے نام پر رکھا گیا تھا، یوں یہ ایک تاریخی شہر کہلاتا ہے۔

یہ سی پیک کے منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے موٹروے کے انتہائی نزدیک ہے مگر حقیقی طور پر اس پورے علاقے کو سی پیک کے کسی بھی منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ جلال پور پیر والا کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ جنوبی پنجاب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ چار دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں جن میں مشرق میں دریائے ستلج، شمال مشرق میں دریائے راوی، مغرب میں دریائے چناب اور دریائے سندھ بہتا ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے چناب پیر والا کے خان بیلہ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور وہاں سے 27 کلومیٹر دور دریائے چناب کا پانی ہیڈ پنجند میں دوسرے دریا سے مل جاتا ہے۔

 گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے عوام اگلے کئی برسوں تک ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار رہے گا۔ اس سال پہلے گلگت بلتستان میں تباہ کن بارشیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ کوہِ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں گلیشیئر پگھلنے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زبردست تباہی آئی۔ گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوا۔ خیبر پختون خوا میں طوفانی بارشوں نے ریکارڈ تباہی مچائی۔ بونیر میں جو تباہی مچائی، یہ ایک انسانی المیے میں تبدیل ہوگئی۔

سیاحتی مقام سوات میں بارش نے الگ تباہی مچائی۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں زبردست بارشوں نے دریائے راوی ، چناب اور جہلم میں طغیابی پیدا کی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، مدہیہ پردیش اور یو پی میں طوفانی بارشوں نے وہاں تعمیرکیے گئے تین ڈیموں کو تباہ کیا اور سیکڑوں بستیوں کو بھی اجاڑ دیا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کے حصے میں چلا گیا تھا مگر جب بھارت نے طوفانی بارشوں کے پانی کو راوی، بیاس اور ستلج میں منتقل کردیا اور اس پانی سے لاہور، سیالکوٹ، گجرات سے لے کر جنوبی پنجاب میں تباہی مچنا شروع ہوئی تو اس پانی نے پہلے ملتان شہر کے کچے کے علاقے میں تباہی مچائی۔ پھر ملتان کی مختلف تحصیلوں شجاع آباد، شیر شاہ، جلال پور پیروالا میں تباہی مچا دی۔ ملتان کے نوجوان صحافی جودت ندیم سید نے شجاع آباد جلال پور پیروالا کے تفصیلی دورے کے بعد لکھا ہے کہ اس پورے علاقے میں سیلابی پانی کی تباہی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس علاقے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک پانی میں گھرے رہے۔

اس پورے علاقے میں سرکاری کشتیوں کی قلت تھی۔ کچھ لوگ پرائیویٹ کشتیاں چلانے لگے۔ ان پرائیویٹ کشتی والوں نے غریب لوگوں سے منہ مانگی رقم طلب کی ۔ جن لوگوں نے یہ رقم ادا کی، و ہ اپنے مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے اور جن لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے وہ پانی میں گھرے رہ گئے۔ ٹی وی چینلز کے اسکرین پر ان غریب مردوں اور عورتوں کی فریاد سنائی دی جاتی رہی۔ پھر یہ شکایت عام تھی کہ خیموں میں آباد خواتین کے لیے بیت الخلاء کی سہولتیں موجود نہیں تھیں۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچوں کو دودھ فراہم نہیں کیا گیا۔ کشتیوں کی کمی کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے۔ عام لوگوں میں عدم اعتماد اور نظم و ضبط کے فقدان کی بناء پر مشکل سے دستیاب ہونے والی کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونے سے کشتی الٹ گئی۔ ان حادثات میں کئی جانیں ضایع ہوئیں۔ انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں میں گھرے ہوئے بعض افراد آخری وقت تک گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے، جس کی بناء پر اپنے گاؤں میں وہ لوگ تنہا رہ گئے۔

اس بناء پر ان افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں دیر ہوئی، مگر متاثرہ افراد کا یہ مؤقف ہے کہ ان کے سامان اور مال مویشیوں کو چوری ہونے کی بہت وارداتیں ہوئیں۔ عجیب بات ہے کہ چوروں کی کشتیاں آرام سے سیلابی پانی میں سفر کرتی رہیں اور غریب لوگ بے بسی کا شکار رہے۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے منتخب اراکین ووٹروں سے دور رہے، اگر منتخب اراکین اور ان کے کارکن عوام کو متحرک کرتے اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں، ان کا سامان اور مال مویشی چوری نہیں ہوںگے تو انتظامیہ کے کاموں میں آسانی ہوجاتی۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے جب پیر والا کا دورہ کیا اور ان کے علم میں پرائیویٹ کشتی مالکان کی لوٹ مارکے واقعات لائے گئے تو انھوں نے یہ حکم دیا کہ تمام پرائیویٹ کشتیاں ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں دی جائیں تاکہ غریب افراد اپنے تباہ ہونے والے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی نگرانی میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی مگر پھر بھی ہزاروں افراد اونچے مقامات اور موٹروے پر امداد کی منتظر تھے۔

 سیلاب نے جنوبی پنجاب میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا شکار ان علاقوں میں ہر سال سیلاب آسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے مگر اس ایمرجنسی میں ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے آیندہ اس علاقے کا مستقبل محفوظ ہوجائے اور پھر کسی نجمہ کے خواب بکھر نہ پائیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاف کی اپیل پر میرٹ کی پامالی کیخلاف احتجاجی کیمپ قائم
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیلاب
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری