نیپال میں احتجاج کے دوران 13 ہزار سے زائد قیدی فرار
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف شروع ہونے والے نوجوانوں کے احتجاج نے ملک گیر بغاوت کی شکل اختیار کر لی، جس کے دوران ملک بھر سے 13,500 قیدی جیلوں سے فرار ہو گئے۔
نیپالی پولیس کے ترجمان کے مطابق، مظاہروں کے دوران 3 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ کئی جیلوں پر حملے کیے گئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں قیدیوں کو جیلوں سے نکلتے اور فوج کو انہیں روکنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا۔
پولیس اب صرف ہیڈکوارٹرز تک محدود ہے، اور امن و امان کی بحالی کے لیےفوج نے سڑکوں پر گشت شروع کر دیا ہے۔ فوج کے سربراہ نے مظاہرین سے پرامن مذاکرات کی اپیل کی ہے۔
یاد رہے کہ یہ احتجاج سوشل میڈیا پر عائد پابندی کے خلاف شروع ہوا تھا، جو بعد میں وزیراعظم کے پی شرما اولی کے استعفے پر منتج ہوا۔ تاہم، مظاہرے اب بھی جاری ہیں اور کئی سرکاری و نجی عمارتوں پر حملے کیے جا چکے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔