Express News:
2025-11-02@18:37:53 GMT

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT

حضرت بہاؤالدین نقش بندیؒ اپنے گاؤں کی گلیوں میں جھاڑو پھیرا کرتے تھے‘ وہ سب سے پہلے اپنا گھر صاف کرتے تھے اور اس کے بعد گلی کو دائیں بائیں صاف کرتے چلے جاتے تھے‘ مریدوں کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ وہ حضرت کو روکتے تھے لیکن آپؒ کا کہنا تھا من کی صفائی تن سے شروع ہوتی ہے‘ آپ جس دن اپنا جسم اور ماحول صاف کر لیں اس دن آپ کا من بھی اجلا ہو جاتا ہے‘ مرید عرض کرتے تھے حضور آپ یہ کام ہمیں سونپ دیں‘ ہم پورے ہندوانہ گاؤں کو اپنی زبان سے چمکا دیں گے‘ آپ کا جواب ہوتا تھا ہر شخص کا تن اور من اس کا اپنا ہوتا ہے‘ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہوتا ہے۔

 تم اپنے تن اور من کی فکر کرو اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو‘ مریدین کو ان کی یہ ادا اچھی لگتی تھی چناں چہ وہ بھی صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے گھر اور پھر گلیاں صاف کرتے تھے‘ حضرت نقش بندی کے دور میں ان کے شاگردوں کی آبادیاں حیران کن حد تک صاف ہوتی تھیں‘ مجھے یہ واقعہ بچپن میں میرے ایک استاد نے سنایا تھا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو استاد نے جواب دیا تھا ترقی خواہ معاشی ہو‘ جسمانی ہو یا روحانی اس کا آغاز ہمیشہ صفائی سے ہوتا ہے‘ ہم عام زندگی میں بھی صاف ستھرے لوگ پسند کرتے ہیں‘ ہم نے اگر کوئی ملازم رکھنا ہو تو ہم ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کیا یہ صاف ستھرا ہے۔

 صاف ستھرے لوگوں کو ملازمت بھی جلدی مل جاتی ہے‘ آپ یہ بھی دیکھ لو جن لوگوں کی دکانیں‘ ورک شاپس اور فیکٹریاں صاف ہوتی ہیں وہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اور جلد کام یاب ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں صف اول کے تمام ملکوں میں صفائی کامن ہوتی ہے جب کہ تیسری دنیا کے زیادہ تر ملک اور لوگ گندے ہوتے ہیں چناں چہ آپ نے اگر انفرادی یا اجتماعی طور پر ترقی کرنی ہو تو آپ کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہے‘ حضرت نقش بندی سرکار اس حقیقت سے واقف تھے چناں چہ وہ خود بھی صفائی کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے‘ نقش بندی آج بھی نسبتاً دوسروں سے زیادہ صاف ہوتے ہیں‘ حضرت کے بارے میں مشہور تھا آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے صحن سے تازہ جھاڑو پھرنے کی خوشبو آتی تھی یوں محسوس ہوتا تھا کسی نے ابھی ابھی جھاڑو پھیرا ہو۔

میں اس ویک اینڈ پر چھٹی مرتبہ بخارہ میں حضرت نقش بندی کے مزار پر حاضر ہوا‘ ہم 44 لوگ تھے‘ ہمارے ساتھ اس مرتبہ شمالی وزیرستان کے ایک ایم این اے بھی تھے‘ یہ دین دار ہیں‘ مدرسہ چلاتے ہیں اور صحیح بخاری کے عالم ہیں‘ انھوں نے مزار پر کھڑے ہو کر طویل دعا کرائی‘ ان کی دعا میں بہت اثر تھا لیکن مزار شریف کی صفائی نے کہیں زیادہ متاثر کیا‘ مزار کے دائیں بائیں مثالی صفائی تھی‘ یہاں کبھی گاؤں ہوتا تھا لیکن حکومت نے سارا گاؤں خرید کر نقش بندی کمپلیکس بنا دیا‘ اب وہاں مسجدیں‘ حجرے‘ میوزیم اور ہینڈی کرافٹ کی دکانیں ہیں۔

 ہم پورے کمپلیکس میں پھرتے رہے لیکن ہمیں کسی جگہ کوئی بوتل‘ ریپر اور ٹشو پیپر دکھائی نہیں دیا‘ یہ صفائی صرف نقش بند کمپلیکس تک محدود نہیں تھی بلکہ ہمیں تاشقند‘ سمرقند اور بخارہ تینوں شہروں میں کسی جگہ کچرا دکھائی نہیں دیا‘ ہم نے تین مرتبہ ٹرین میں سفرکیا‘ یہ سفر ہزار کلومیٹر سے زیادہ تھا‘ ہم تاشقند سے سمرقند گئے‘ وہاں سے بخارا کی ٹرین لی‘ میرا گروپ خیوا چلا گیا جب کہ میں سمر قند سے ہوتا ہوا تاشقند اور وہاں سے واپس پاکستان آ گیا‘ آپ یقین کریں ہمیں کسی جگہ کچرا اور گندگی نظر نہیں آئی‘ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ کسی قسم کی تجاوزات نہیں تھیں‘ پٹڑی کی دونوںسائیڈز پچاس پچاس میٹر تک مکمل صاف اور کلیئر تھیں‘ آبادی اس کے بعد شروع ہوتی تھی اور یہ بھی سلیقے کے ساتھ تھی‘ کوئی گھر یا عمارت بری یا گندی نہیں تھی‘ جانوروں کے باڑوں میں بھی سلیقہ اور صفائی نظر آتی تھی‘ کھیت اور باغ بھی ترتیب کے ساتھ تھے۔

 فصلوں کی لائنیں تک سیدھی تھیں‘ مجھے بائی روڈ بھی سفر کا موقع ملا‘ آپ یقین کریں کسی سڑک پر کوئی تجاوز نہیں تھی‘ دکانیں اندر تک محدود تھیں‘ کسی سڑک پر کوئی ریڑھی تھی اور نہ کرسی اور میز‘ فٹ پاتھ اور سروس روڈ مکمل کلیئر اور صاف تھی‘ لوگ بھی صرف زیبرا کراس سے سڑک عبور کر رہے تھے‘ درمیان سے سڑک پار کرنے کی کوئی مثال نظر نہیں آئی‘ ہمیں ہوٹل سے ایک نوجوان سڑک کے درمیان چلتا اور پار کرتا دکھائی دیا‘ ہمیں بہت حیرت ہوئی لیکن جب وہ قریب آیا تو پتا چلا وہ ہمارے گروپ کا پاکستانی بھائی تھا‘ ہمیں اس کے علاوہ کسی جگہ کوئی شخص یہ حرکت کرتا نظر نہیں آیا‘ زیبرا کراسنگ پر دونوں سائیڈز پر بیس بیس فٹ کے فاصلے پر لائنیں لگی ہیں‘ گاڑیاں یلو لائیٹ پر لائن پر رک جاتی ہیں‘ پیدل لوگ گزرتے ہیں اور اس کے بعد لائیٹ ریڈ ہوتی ہے تو گاڑیاں چلتی ہیں۔

ہمیں پورے ملک میں بھکاری نہیں ملے‘ حضرت نقش بندی کے مزار پر چند بھکاری آئے اور انھوں نے دست سوال دراز کر دیا‘ ہم انھیں رقم دینے لگے لیکن پھر سفید کپڑوں میں ایک صاحب آئے‘ انھوں نے ان سے بات کی اور موبائل فون سے ان کی وڈیو بنا لی‘ تمام بھکاری فوراً فرار ہو گئے‘ ازبک خواتین بہت بااعتماد اور تگڑی ہیں‘ یہ پورے ملک میں پورے اعتماد کے ساتھ چلتی پھرتی نظر آتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ یہ دفتروں سے لے کر دکانوں تک ہر قسم کا کام کرتی ہیں اور ان کے چہرے پر ذرا برابر تھکاوٹ یا بے زاری نظر نہیں آتی‘ یہ پورے اعتماد کے ساتھ چلتی ہیں‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کا عملہ بہت ٹرینڈ اور نفیس ہے۔

 دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے اور دوسروں کی دل سے خدمت کرتا ہے‘ خریداری میں تاہم کھل کر بارگیننگ ہوتی ہے‘ نرخ فکس نہیں ہیں‘ دکان دار دس لاکھ سم مانگے گا اور سودا دو لاکھ میں ہو جائے گا‘ کرنسی بہت کم زور ہے‘ ایک ڈالر کے ساڑھے بارہ ہزار سم ملتے ہیں‘ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو ساڑھے بارہ لاکھ سم مل جائیں گے یوں آپ لاکھ پتی ہو جائیں گے لیکن آپ اگر ایک مرتبہ واش روم چلے جائیں تو چوکی دار آپ سے تین ہزار سم وصول کر لے گا‘ پانی کی بوتل بھی بیس ہزار سے لے کر تیس ہزار سم میں آتی ہے‘ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کے زبیر سعید شیخ صاحب تھے‘ یہ بہت پڑھے لکھے‘ سمجھ دار اور شان دار انسان ہیں‘ انھوں نے بخارہ سے پانچ لاکھ سم میں دوقراقلی ٹوپیاں خریدلیں‘ یہ اس کارنامے پر بہت خوش تھے۔

 ان کا کہنا تھا دکان دار نے ان سے ایک ٹوپی کے چھ لاکھ سم مانگے تھے لیکن میں پانچ لاکھ میں دو خرید لایا‘ ہم دو دن ان کی دوسری ٹوپی نیلام کرتے رہے لیکن بدقسمتی سے سودا نہیں ہو سکا‘ شیخ صاحب کا خیال ہے میں اب یہ گوجرانوالہ میں فروخت کروں گا لہٰذا گوجرانوالہ کے شہریوں کے لیے وارننگ ہے ٹوپی آ رہی ہے خریداری کا بندوبست کر لیں‘ شیخ صاحب کا کہنا تھا یہ میری زندگی کی مہنگی ترین ٹوپی ہے‘ میں اب کہہ سکتا ہوں میں اڑھائی لاکھ کی ٹوپی پہنتا ہوں‘ مجھے اس مرتبہ یہ بھی پتا چلا بادام بھی زندہ اور مردہ ہوتے ہیں۔

 یہ لوگ تازہ باداموں کو زندہ اور پرانے باداموں کو مردہ کہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے مردہ باداموں میں تیل کم ہو جاتا ہے چناں چہ ان کی افادیت اور تاثیر کم ہو جاتی ہے جب کہ تازہ بادام میں یہ دونوں خوبیاں وافر مقدار میں ہوتی ہیں‘ میں روزانہ بادام کھاتا ہوں‘ میں نے دنیا جہاں کے بادام ٹرائی کیے لیکن آپ یقین کریں ازبکستان کے باداموں کا کوئی مقابلہ نہیں‘ آپ کو اگر ایک مرتبہ ان کا ذائقہ لگ گیا تو پھر آپ پوری زندگی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکیں گے۔

ازبکستان اسلامی بلکہ مذہبی ملک ہے‘ آپ کو پورے ملک میں صاف ستھری مسجدیں ملتی ہیں‘ ان میں نماز بھی ہوتی ہے‘ لوگ بھی مذہبی ہیں‘ آپ کو حجاب میں عورتیں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود کسی جگہ شدت نہیں‘ لوگ مذہبی گفتگو نہیں کرتے‘ کسی سے اس کا عقیدہ نہیں پوچھتے‘ نماز صرف مسجد یا گھر پر پڑھی جا سکتی ہے‘ کسی عوامی مقام پر نماز کی اجازت نہیں‘ ہمارے گائیڈ داستان نے بتایا‘ ہم اسلامی ملک نہیں مسلمان ملک ہیں چناں چہ یہاں دوسرے مذہب کے لوگ محفوظ ہیں‘ ہم کھلے دل کے ساتھ انھیں قبول کرتے ہیں‘ تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ امام حکومت تعینات کرتی ہے اور یہ تعلیم بھی حکومتی مدارس میں حاصل کرتا ہے‘ امام صرف نماز پڑھا سکتا ہے ‘ اسے کسی قسم کی تقریر کی اجازت نہیں‘ خطبہ حکومت بھجواتی ہے اور امام اسے پڑھنے کا پابند ہوتا ہے۔

 ملک میں تبلیغ کی اجازت نہیں‘ ان کا خیال ہے ہم نے جتنا مسلمان بننا تھا ہم بن چکے ہیں ہمیں مزید تبلیغ کی ضرورت نہیں‘ تمام ریستورانوں میں ڈنر کے وقت موسیقی اور ناچ گانا چلتا ہے جس میں گھریلو عورتیں بھی شریک ہوجاتی ہیں‘ شراب عام دستیاب ہے لیکن کوئی شخص سرعام نہیں پی سکتا‘ لوگ صرف ریستوران میں شراب نوشی کر سکتے ہیں یا ہوٹل یا گھر میں اور ہم نے پورے ملک میں کسی شخص کو لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا بلکہ رکیے ہم نے کسی شخص کو اونچی آواز میں کسی سے مخاطب ہوتے بھی نہیں دیکھا‘ کیوں؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘ میرے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں اگر یہ لوگ مسلمان ہیں تو پھر ہم کیا ہیں؟دوسرا اگر یہ لوگ پوری قوم میں نظم وضبط پیدا کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ کیا آپ کے پاس ان دو سوالوں کا جواب ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پورے ملک میں نہیں تھی کرتے تھے انھوں نے نظر نہیں ہوتا ہے لاکھ سم کا خیال ہیں اور کسی جگہ ہوتی ہے کے ساتھ چناں چہ صاف کر کے بعد

پڑھیں:

تہجد کا انعام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہر مخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔
رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیا خوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: کوئی ہے جو ہمیں حاصل کرے۔ لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اور اس کی رضاجوئی ہے۔

اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘ اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصد حیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار
ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:
”ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں (السجدہ: 16)“۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:
”پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے (السجدہ: 17)“۔
یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضورؐ کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے (بنی اسرائیل: 79)“۔
مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آپؐ کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے (معارف القرآن)۔

اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے: ”اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے (ترمذی)“۔
عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہا اور انمول خزانے ہیں اور پھر ان پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐ کے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘ اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جو اس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
جنید بغدادیؒ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں (تفسیر عزیزی)‘‘۔

صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘ لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘ سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر ؎
تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔

مولانا حماد اللہ گلزار

متعلقہ مضامین

  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • نیویارک کا پہلا مسلمان میئر؟ ظہران ممدانی کے وعدوں نے انتخابات کو پرجوش بنادیا
  • آشنائی اور پسند کی شادی
  • تہجد کا انعام
  • کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے