سلامتی یا سینسرشپ؟ پاکستان میں ڈیجیٹل نگرانی پر تشویش کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک نئی رپورٹ میں پاکستان میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کیےجانے کا انکشاف کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے لا فل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم یعنی لمز اور ویب مانیٹرنگ سسٹم یعنی ڈبلیو ایم ایس نامی فائر وال کے ذریعے کم از کم 4 لاکھ موبائل فونزاور 2 لاکھ آن لائن سیشنز کو مانیٹرکیا ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ یہ نظام اظہار رائے کو دبانے اور اختلاف کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس نگرانی کے لیے چینی اورمغربی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے، جس سے پرائیویسی اور انسانی حقوق کے سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ٹیلی کام نگرانی کا نظام قانونی اور عالمی معیار کے مطابق ہے، پی ٹی اے
انسانی حقوق کی تنظیم نے بین الاقوامی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس نگرانی کے نظام میں اپنا کردار واضح کریں اور ایسے اقدامات سے اجتناب کریں جو شہری آزادیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لمز اور ڈبلیو این ایس سسٹمز کیا ہیں؟ یہ سسٹمز کس قسم کی معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں؟ اور کیا اس سے واٹس ایپ اور سگنل جیسی ایپس بھی متاثر ہوسکتی ہیں؟
سائبر سیکیورٹی ماہر اطہر عبدالجبار کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں جس نگرانی کے نظام کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ دراصل پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں آن لائن جوا: خطرات، قوانین اور روک تھام کیسے ممکن ہے؟
ان کے مطابق لمز کا فوکس ٹیلی کام سروسز پر ہے، یعنی کالز، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس کو ٹریک اور ٹریس کرنا۔ اس سسٹم میں جس نمبر کی نگرانی مقصود ہو اسے فیڈ کر دیا جاتا ہے، جس کے بعد اس نمبر سے متعلق تمام کالز، پیغامات اور حتیٰ کہ لوکیشن تک ریکارڈ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو ایک طرح کا فائر وال ہے۔ اس کے ذریعے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس قسم کا ڈیٹا ملک میں آ رہا ہے اور کون سا باہر جا رہا ہے۔
’اس سسٹم کی مدد سے حکومت مخصوص ویب سائٹس یا یو آرایل بلاک کرسکتی ہے، حتیٰ کہ وی پی این کو بھی محدود کیا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت نے پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی قائم کر دی، ڈاکٹر سہیل منیر چیئرمین مقرر
واٹس ایپ اور سگنل جیسی انکرپٹڈ ایپس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے پیغامات کا مواد براہِ راست پڑھنا ممکن نہیں، تاہم میٹا ڈیٹا یعنی یہ کہ کس نے کب اور کس کو پیغام بھیجا، ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ مگر میسج کا مواد پڑھنا ممکن نہیں۔
اطہر عبدالجبار کے مطابق یہ صورتحال ایک طرف ریاستی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے میں مددگار تو ہے لیکن دوسری جانب شہریوں کی پرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے سنگین خدشات بھی پیدا کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ہر روزکروڑوں ٹیلی فون کالیں خفیہ طور پر سن کر، چین کی تیار کردہ اور پاکستان میں زیر استعمال ایک انٹرنیٹ فائروال کی مدد سے اور سوشل میڈیا پر سنسرشپ کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم: وزیراعظم نے ایف بی آر میں ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری دیدی
اس حوالے سے ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ ڈاکٹر ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ جدید سرویلنس سسٹمز شہریوں کی پرائیویسی کے لیے نہایت سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ہر کال، پیغام اور آن لائن سرگرمی ریکارڈ یا مانیٹرنگ کی صورت میں متعلقہ شہری کی ذاتی زندگی تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
’یہ صورت حال براہِ راست شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے، کیونکہ پرائیویٹ لائف کسی بھی آزاد معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر ہارون بلوچ نے بتایا کہ ان سسٹمز کا غلط استعمال بھی ایک بڑا خدشہ ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجیز صرف قومی سلامتی کے بجائے سیاسی مقاصد یا ذاتی مفاد کے لیے استعمال کی جائیں تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں مائیکروسافٹ کا دفتر بند: کیا ملکی ڈیجیٹل معیشت کو نقصان ہو سکتا ہے؟
’ایسے حالات میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین اور ناقدین کو دبانے کے لیے ان سسٹمز کو استعمال کیا جا سکتا ہے، جو جمہوری اقدار کے برعکس ہے۔‘
واضح رہے کہ ایمنسٹی نے 9 ستمبر 2025 کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں ریاستی نگرانی کا یہ نیٹ ورک وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اسے چینی ساختہ اور مغربی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئےبروئے کار لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ہارون بلوچ کے مطابق یہ نگرانی صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے خصوصی طور پر خطرناک ہے، کیونکہ یہ لوگ اکثر اپنی حکمتِ عملی، رپورٹس یا معلومات اپنے ذرائع کے ذریعے حاصل اور شیئر کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: قلم کی جنگ: پاکستانی صحافیوں پر سائبر قوانین کا شکنجہ
’اگر ان کے ذرائع تک رسائی حساس اداروں کو حاصل ہو جائے تو نہ صرف ان کی آزادی اور کام متاثر ہوگا بلکہ ان کی زندگی اور سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘
یہی وجہ ہے کہ ایسے سسٹمز کا استعمال کرتے ہوئے شہریوں کی اس نوعیت کی نگرانی پرسخت سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ ریاستی سلامتی کے لیے ہیں یا شہریوں کی آزادی سلب کرنے کا ذریعہ۔
ڈیجیٹل قوانین کے حوالے سے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا جامع ڈیٹا پروٹیکشن یا پرائیویسی قانون موجود نہیں جو نگرانی کے ان نظاموں کو مؤثر طور پر ریگولیٹ کر سکے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی پائلٹ پروجیکٹ کا عنقریب آغاز، کرپٹو ریگولیشن منظور
یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ شہری آزادیوں کے لیے سنگین خدشہ بن رہا ہے اور مستقبل میں ایسے قوانین کی فوری ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیم بولو بھی کی شریک بانی فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ نے پچھلے سال کی ان قیاس آرائیوں کو درست ثابت کیا ہے جن میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر کنٹرول کے لیے ایک ’فائر وال‘ کی تنصیب کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے۔
فریحہ کے مطابق اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بیرونِ ملک سے خرید کر ملک میں لگائی گئی ہے، اس طرح کی ٹیکنالوجی کی خرید و فروخت پر بحث ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ براہِ راست انسانی حقوق کے لیے خطرے کا باعث بنتی ہے۔
مزید پڑھیں: عدالتوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے، چیف جسٹس پاکستان
’جب یہ ٹیکنالوجی حکومتوں کو فراہم کی جاتی ہے تو اس کے استعمال کا طریقہ شہریوں کی پرائیویسی اور آزادی اظہار کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہر شخص کی بات سنی جا رہی ہے بلکہ ذرائع کی حفاظت بھی ممکن نہیں رہتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان خدشات کی گنجائش اب بھی موجود ہے کیونکہ یہاں ٹارگٹڈ سرویلنس کے ساتھ ساتھ ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام بھی قائم ہے۔
فریحہ کے مطابق فائر وال کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کون سی ویب سائٹ یا مواد تک رسائی ممکن ہو اور کون سا بلاک رہے۔ اسی لیے صارفین اکثر وی پی این کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہیں، لیکن بعد میں یہ بھی سامنے آیا کہ وی پی این کو بھی مختلف اوقات میں بند کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025: ایک تنقیدی جائزہ
ان کے مطابق رپورٹ سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ کن غیر ملکی کمپنیوں نے اپنا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر پاکستان کو فروخت کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شِزہ فاطمہ خواجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ فائر وال کا مقصد مواصلاتی آزادی کو محدود کرنا نہیں بلکہ یہ ایک سائبَر سیکیورٹی اقدام ہے۔
’اگرمقصد سینسرشپ ہوتا تو ایکس کے ساتھ ساتھ ٹِک ٹاک اور فیس بک کو بھی بند کیا جاتا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اطہر عبدالجبار ایمنسٹی انٹرنیشنل ٹیکنالوجی ٹیلی کام سروسز ڈاکٹر ہارون بلوچ ڈیجیٹل قوانین سائبر سیکیورٹی فائر وال فریحہ عزیز واٹس ایپ وی پی این ویب سائٹس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اطہر عبدالجبار ایمنسٹی انٹرنیشنل ٹیکنالوجی ٹیلی کام سروسز ڈاکٹر ہارون بلوچ ڈیجیٹل قوانین سائبر سیکیورٹی فائر وال واٹس ایپ وی پی این ویب سائٹس ایمنسٹی انٹرنیشنل ڈاکٹر ہارون بلوچ پاکستان میں استعمال کی مزید پڑھیں جا سکتا ہے نگرانی کے رپورٹ میں شہریوں کی جا رہا ہے واٹس ایپ کے ذریعے کے مطابق فائر وال کا کہنا کے لیے کیا جا
پڑھیں:
جنگ بندی برقرار: پاکستان، افغانستان نگرانی اور تصدیق کے میکنزم پر بھی متفق، اگلا دور 6 نومبر کو: ترک وزارت خارجہ
استنبول؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں+ عزیز علوی) پاکستان اور افغانستان استنبول مذاکرات میں جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کر لیا۔ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر برقرار رہے گا۔ تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کیا جائے گا۔ افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور قطر نے 25 تا 30 اکتوبر کے دوران استنبول میں اجلاس منعقد کئے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے ضوابط اگلے مذاکرات میں طے ہوں گے۔ مذاکرات کا مقصد دوحہ قطر میں طے پانے والی جنگ بندی جاری رکھنا تھا۔ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کا میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق بطور ثالث ترکیہ اور قطر دونوں فریقین کے تعاون کو سراہتے ہیں۔ امن کیلئے وضع شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھہرایا جائے گا۔ استنبول مذاکرات عبوری رضامندی اور خطے میں امن کی جانب پیش قدمی ہیں۔ پاکستان اس تمام معاملے کو internationalise کرنے میں کامیاب ہوا جو پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔ یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیئے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پائیدار بنانے کیلئے اسے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔ تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔ ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور verification میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی کے خلاف فیصلہ کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔ ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں فریقین کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ مہارت کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوا۔ اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیش رفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو مخالف قوتوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابل تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔ وزیر دفاع نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا دوست ممالک نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔ ہم نے اپنی پوزیشن کلیئر کر دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ قانونی طور پر افغان رجیم کا کوئی ’’سٹیٹس‘‘ نہیں ہے۔ افغان طالبان رجیم کے پاس اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز نہیں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میزبانوں ترکیہ اور قطر کی درخواست نے پاکستانی ٹیم کو ائر پورٹ سے بلوایا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا پاکستان اور افغانستان کے درمیان شٹل ڈپلومیسی ہوئی۔ بدھ کے روز مذاکرات کے حوالے سے ہماری امید ٹوٹ گئی تھی۔ ہمیں افغان طالبان رجیم سے کوئی امید نہیں۔ ثالثوں کے ذریعے مختلف مسودے شیئر کئے۔ بدھ کے مقابلے میں گزشتہ روز کچھ تھوڑ سی امید پیدا ہوئی۔ کابل کے لوگ کہہ رہے تھے ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں گے، لکھ کر نہیں دیں گے۔ غزہ میں فوج کیوں نہیں بھیجی جا رہی ہے؟ معاہدہ فلسطین اور حماس نے خود کیا ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ غیر مسلح ہونے کا معاہدہ حماس نے خود کیا۔ ابھی کسی نے غزہ میں فوج بھیجنے کا نہیں کہا۔ غزہ میں فوج بھیجنے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ پارلیمان میں چیزوں پر بحث ہو سکتی ہے۔ ابھی 27 ویں ترمیم کے حوالے سے کوئی تجویز آن پیپر نہیں۔ بلوچستان، خیبر پی کے میں کچھ علاقوں میں بغیر عدالت تمام معاملات ہوجاتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کا مطالبہ ہے لوگوں کی گرفتاری اور پروسیڈ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بفر زون قائم کیا جائے۔ اگر افغانستان تیار ہوتا ہے تو مل کر بفر زون قائم کی جائے گی۔ اگر افغانستان تیار نہ ہوا تو ہم خود بفرزون قائم کریں گے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ ہم یکطرفہ طور پر دہشتگردی کا شکار ہوتے رہیں۔ یفر زون کیلئے قطر، ترکیہ، سعودی عرب غیر جانبدار ثالث کے طور پر ذمہ داری ادا کریں گے۔ افغانستان میں جہاں دہشتگردوں کی تربیت ہو رہی ہے ان تمام علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے افغانستان سے دہشتگردی کے ثبوت دیئے ہیں۔ افغان طالبان تسلیم کرتے ہیں لیکن لکھ کر دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان چاہتا ہے افغان طالبان لکھ کر دیں۔ خواجہ آصف نے پاکستان کے دفاع کے حوالے سے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا۔ افغان نمائندہ وفد کئی بار راضی ہوا۔ کابل سے رابطہ کیا تو نئی بات کی گئی۔ کابل میں موجود لوگوں کو بھارت کی حمایت حاصل اور مداخلت کا سامنا ہے۔ بھارت بھی حالات خراب کرانے میں سرگرم ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا ہے کہ افغان وفد کا کہنا ہے ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغان سرزمین پر پاکستانی پناہ گزین ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد اپنے گھروں میں پاکستان واپس جا رہے ہیں، کیسے پناہ گزین ہیں جو اپنے گھر انتہائی تباہ کن اسلحہ سے مسلح ہوکر جا رہے ہیں۔ جو اپنے گھر، بسوں، ٹرکوں اور گاڑیوں پر سوار ہو کر نہیں جا رہے، کیسے پناہ گزین ہیں جو چوروں کی طرح دشوار راستوں سے پاکستان داخل ہو رہے ہیں، یہ تاویل ہی افغانستان کی نیت کے فتور اور خلوص سے عاری ہونے کا ثبوت ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو یہ بات ماننا پڑی کہ دہشتگرد کا رروائیاں بند ہوں گی۔ امید ہے اب دہشتگرد کا رروائیاں نہیں ہوں گی۔ دوست ممالک پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ترکیہ اور قطر پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف سزا کا تعین کیا جائے گا۔ پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کو سپورٹ کیا جا رہا تھا۔ پشت پناہی دی جا رہی تھی۔ یہ پاکستان کے مؤقف کی تائید اور بیانیے کی جیت ہے۔ پوری دنیا کو پتا ہے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی مدد سے دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ جنگ بندی میں افغان طالبان کی جانب سے فتنہ الخوارج کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اب نیا فورم میسر ہو گا جہاں دہشتگردی کے ثبوت پیش کرے گا۔ افغان طالبان کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ عطاء تارڑ نے کہا پاک افغان سرحدیں کھولنے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ دریں اثناء وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری نے کہا کہ پاکستان کے اصولی مؤقف کی جیت ہوئی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کسی کی بھی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کا امن پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان بھارت کی پراکسی بنا رہا تو کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گا۔