پختونخوا میں ناقص کارکردگی کے حامل اسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
پشاور:
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں ناقص کارکردگی کے حامل اسپتالوں کو آوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
صوبائی مشیر صحت احتشام علی کے مطابق ناقص کارکردگی والے اسپتالوں کے انتظامی امور کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر 24 اسپتالوں کو آوٹ سورس کیا جارہا ہے ۔ ان ہسپتالوں میں کٹیگری بی، سی اور ڈی لیول کے اسپتال شامل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آوٹ سورسنگ کا مقصد عوام کو سرکاری خرچے پر بہترین علاج فراہم کرنا ہے ۔ان اسپتالوں میں معیاری اور مفت علاج سرکاری پرچی کے ریٹ پر مہیا کیا جائے گا ۔ ہم اسپتال پرائیویٹ نہیں کررہے، بلکہ ان اسپتالوں کا انتظام و انصرام نجی شعبے کو دے رہے ہیں ۔
مشیر صحت کا کہنا تھا کہ ان اسپتالوں کے سرکاری ملازمین اپنی روٹین کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ اسپتال میں طبی عملے، آلات و دیگر کمی بیشی نجی کمپنیاں پوری کریں گی۔ اس اقدام سے بروقت او پی ڈی خدمات، سرکاری رویے، صفائی ستھرائی، طبی عملے کی حاضری اور آلات کی فعالی جیسے مسائل کا فوری خاتمہ ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کی جانچ کے لیے محکمہ صحت کا آئی ایم یو ان اسپتالوں کی مانیٹرنگ کرے گا اور خراب کارکردگی پر ان کمپنیوں کے فنڈز سے کٹوتی کی جائے گی۔ ان اسپتالوں میں عوامی شکایات کے ازالے کا بھرپور مکینزم ہوگا ۔ اگلے مرحلے میں مزید اسپتالوں کو بھی آوٹ سورس کیا جارہا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسپتالوں کو ان اسپتالوں آوٹ سورس
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔