بینک ایپس کی سکیورٹی: ماہرین نے شہریوں کو نئی ہدایات جاری کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) ملک کے بڑے شہروں میں موبائل ایپس کے ذریعے شہریوں کو لوٹنے کے بڑھتے واقعات کے بعد ماہرین نے بینک ایپس کو محفوظ رکھنے کے لیے اہم اقدامات تجویز کیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ہیکرز اور ڈاکو اب شہریوں کے بینک اکاؤنٹس تک براہِ راست رسائی حاصل کر رہے ہیں، جس کے باعث ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ شہری اپنی رقم اور ذاتی معلومات کے تحفظ کے لیے چند بنیادی اصول اپنائیں۔
سب سے پہلے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بینک اکاؤنٹ کھلوائیں اور جس بینک ایپ کو موبائل پر انسٹال کریں، اس میں 10 ہزار روپے سے زیادہ رقم نہ رکھیں۔ بڑی رقم دوسرے اکاؤنٹ میں رکھیں اور اس کی ایپ کو موبائل پر انسٹال نہ کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون میں ایپ لاک یا سکیور فولڈر استعمال کریں اور بینک ایپ پر “ایپ ہیڈر” لگائیں تاکہ وہ ڈاکوؤں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اسی طرح بینک ایپ کو کبھی بھی ہوم اسکرین پر نہ رکھیں بلکہ کسی پوشیدہ یا کم استعمال ہونے والے فولڈر میں منتقل کر دیں۔
بایومیٹرکس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ صرف فنگر پرنٹ یا فیس لاک پر انحصار نہ کریں کیونکہ یہ زبردستی استعمال کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے بجائے بایومیٹرکس کے ساتھ پن کوڈ یا پاس ورڈ کا امتزاج اپنایا جائے۔
سب سے اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ شہری “پینک لاک ایپس” انسٹال کریں، جو مخصوص کوڈ پر پورے موبائل کو لاک کر دیتی ہیں یا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بینک ایپس کے لاگ ان اور پاس ورڈ کو کبھی بھی موبائل میں محفوظ نہ کریں کیونکہ یہ اقدام خودکشی کے مترادف ہے۔
ماہرین نے زور دیا ہے کہ ہر شہری اپنے بینک کا “فوری بلاک سروس کوڈ” یاد رکھے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں دوسرے فون سے اپنا اکاؤنٹ بند کرا سکے۔
سائبر کرائم وارننگ کے مطابق یہ صرف ڈاکوؤں کا نہیں بلکہ ڈیجیٹل ہیکرز کا بھی خطرہ ہے۔ شہری اگر محتاط نہ ہوئے تو ان کی محنت کی کمائی، خواب اور سکون سب کچھ چند لمحوں میں ختم ہو سکتا ہے۔
Post Views: 8.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد بالغ افراد وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان میں دس کروڑ سے زائد بالغ افراد وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہیں، جو ملک کو صحت عامہ کے ایک سنگین بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بین الاقوامی اور ملکی ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نوجوانوں میں اموات اور معذوری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔
کراچی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے تین بالغ افراد موٹاپے یا زائد وزن کا شکار ہیں۔ موٹاپا ذیابیطس، دل کے امراض، فالج، کینسر، بانجھ پن اور نیند کے مسائل جیسے خطرناک نتائج کا سبب بن رہا ہے۔
یونیورسٹی آف برمنگھم کے پروفیسر وسیم حنیف نے کہا کہ جنوبی ایشیائی افراد کم وزن پر بھی زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں، اور ان کیلئے بی ایم آئی کی مثالی حد 23 ہونی چاہیے۔ انہوں نے موٹاپے کو ایک دائمی مرض قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نوجوانی میں جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
کانفرنس میں تیرزیپیٹائیڈ نامی نئی دوا کے مقامی جنیرک ورژن کی دستیابی کا اعلان کیا گیا، جو وزن میں 25 فیصد تک کمی لا سکتی ہے۔ تاہم ماہرین نے واضح کیا کہ دوا کے مؤثر نتائج کیلئے متوازن غذا، باقاعدہ ورزش اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔
گیٹز فارما کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم حسین نے کہا کہ ان کی کمپنی موٹاپے اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کے لیے سستی اور مؤثر سائنسی بنیادوں پر مبنی علاج فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایل پی-1 اور جی آئی پی تھراپی کے ذریعے وزن میں کمی اور ذیابیطس و دل کی بیماریوں کے خطرات میں کمی ممکن ہے۔
پرائمری کیئر ڈائبٹیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر ریاست علی خان نے کہا کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 57 فیصد پاکستانی بچے 35 سال کی عمر سے پہلے موٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ موٹاپے کو بیماری سمجھ کر بروقت علاج اور رہنمائی فراہم کرنا ضروری ہے۔
گیٹز فارما کے زیر اہتمام منعقدہ اس کانفرنس میں ماہرین نے جی ایل پی-1 اور جی آئی پی تھراپی کو ذیابیطس اور دل کے امراض کے خطرات میں کمی کیلئے مؤثر قرار دیا۔ پاک صحت اسٹڈی کے مطابق پاکستان میں صرف 20 فیصد بالغ افراد نارمل بی ایم آئی میں ہیں، جبکہ تین چوتھائی افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔
ماہرین نے اس دوا کی دستیابی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موٹاپے کے خلاف سائنسی بنیادوں پر مبنی، سستی اور مؤثر علاج کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔