ولادت مصطفی ﷺ سے اطاعت مصطفی ﷺ تک
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
ماہ ربیع الاول روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان کے لیے انتہائی معتبر اور مقدس مہینہ ہے، اس ماہ مقدس میں رب العالمین نے محسن ِ انسانیت، پیغمبرِ اسلام، رحمت للعالمین، آقا نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتِ مجسم بناکر بھیجا، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت تاریخ انسانی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت ہر سال بارہ ربیع الاول کو منایا جاتا ہے، یہ تاریخ اس رحمت اور رہنمائی کی علامت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے تھے۔
روئے زمین پر بسنے والا ہر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی اپنے اپنے انداز میں مناتا ہے، کوئی درود و سلام کی محافل، کوئی سیرت کے موضوع پر کانفرنسوں، جلسے، سیمینارز کا اہتمام کرتا ہے، کوئی بھوکوں کوکھانا کھلاتا ہے، کوئی مستحق افراد میں تحائف تقسیم کرتا ہے، کوئی بے سہارا بچیوں کی شادیاں کراتا ہے، کوئی دن بھر مساجد میں بیٹھ کر یا چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے درود وسلام پڑھ کر آقا کریمﷺ کو ہدیہ کرتا ہے۔ توکوئی اللہ سے وعدہ کرتا ہے کہ آیندہ زندگی نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق گزاروں گا۔
ہر مسلمان کا اپنے نبی ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا اپنا انداز اور بحیثیت مسلمان اور امتی کے ہم سب کا مقصد رضائے الٰہی اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی ہونی چاہیے۔ مگر افسوس کہ جشن میلاد النبی کے موقع پر بعض لوگ ایسی نامناسب حرکات بھی کرتے ہیں جو وجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار حضرت محمد رسولﷺ کے ولادت باسعادت کے دن کی تقدیس کے برعکس ہوتے ہیں، بعض نوجوانوں کی جانب سے کہیں کہیں بدتمیزی اور نامناسب مظاہر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
اس قسم کے طوفان بدتمیزی کو روکنے کا بھی کوئی اہتمام ہونا چاہیے؟ یہ سوال ہر درد مند مسلمان اور عاشق رسول مقبول ﷺ کی طرح میرے دل ودماغ میں بھی ایک عرصے سے گھوم رہا ہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس پر لکھ کر اپنا درد دل کیسے بیان کروں مگر میری مشکل آسان ہوئی جب میں نے اس ماہ مقدس میں دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے چوٹی کے علماء کو پڑھا اور سنا تو دل کو قرار آیا کہ انشاء اللہ ان خرافات و منکرات کا رستہ روک کر اگلے سال انشاء اللہ جشن عید میلاد النبی کو رحمت العالمین کی شان و سیرت کے مطابق منایا جائے گا۔
گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمٰن کا ایک وڈیو کلپ سنا جو غالباً گزشتہ سال ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں کی گئی تقریر کا تھا، اس کلپ میں مولانا نے ہمارے حال کی صحیح عکاسی کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں "جب 12 ربیع الاول آتا ہے تو ہم اسے یوم میلاد کے طور پر مناتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جب دنیا میں چمکا اور پوری کائنات کو روشن کیا، اس دن امت اس پر خوشی کا اظہار کرتی ہے اس اعتبار سے تو رسول اللہ ہماری محبت کے مستحق ہیں ان کے بغیر ہم جائیں گے کہاں؟ میلاد پر تو ہم خوشی منائیں، امتی ہونے پر خوشی کا اظہار کریں، لیکن سیرت کے حوالے سے جہاں آپ واجب الاتباع ہیں وہاں ہمارا کردار کیا ہے؟ سارا سال تو ہم نے دین اور آپ کی اتباع کی طرف تو دیکھا نہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ محبت کو بھی آپ ﷺ کی اتباع کے ساتھ وابستہ کرلیا کہ "اگر میرے ساتھ تمہیں محبت ہے تو رسول اللہ کی اتباع کرو"۔ اللہ کی محبت بھی اگر ہمیں نصیب ہوتی ہے تو وہ بھی اس شرط پر کہ رسول اللہ کی اطاعت کرو۔ آپ اندازہ لگائیں کہ من حیث القوم ہماری وہ کوتاہی کہ ہم آپ کی اتباع نہیں کررہے قدم قدم پر نافرمانیاں کررہے ہیں، اور پھر سوچتے ہیں کہ اللہ کی رحمت آئے گی"۔ اسی دن میری نظر بریلوی مکتب فکر کے تمام مدارس کے وفاق تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے سربراہ اور بریلوی مکتب فکر کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب کے ایک آرٹیکل پر پڑی جو "تفہیم المسائل" کے عنوان سے ایک قومی اخبار کے دینی صفحہ پر شایع ہوا تھا۔ اس آرٹیکل میں ان سے سوال پوچھا گیا کہ "میلاد شریف کے جلوسوں میں دف کا اہتمام کیا جانا، تالیاں بجانا، ڈھول اور رقص پر اصرار کیا جانا، شریعت مطہرہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ مفتی منیب الرحمان نے قرآن و سنت کی روشنی میں بڑے مدلل انداز میں اس کا جواب دیا ہے۔
انھوں نے جواب میں کہا ’’میلاد النبیﷺ کے جلسے اور جلوس محرمات، مکروہات سے پاک ہونا ہی رسول اللہ ﷺ سے حقیقی محبت کا ثبوت ہے، آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کا مقصد ظلمت و جہالت کو دور کرنا اور احکام الٰہی کا پابند بنانا ہے، لوگوں کی رذیل صفات کو حسن اخلاق میں بدل دینا ہے۔ رسالت مآبﷺ کی ولادت باسعادت کے دن کا اکرام انھی شرعی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مجالس میں نظر آتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب دعویٰ عشق و محبت رسول ﷺ کے خلاف ہے۔
(شرح السنہ للبغوی) حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ کامل ایمان کی علامت یہ کہ انسان کا ہر قول و فعل، معاملات و معمولات اور خواہشات رسول اللہﷺ کی خواہشات اور احکامات کے مطابق ہوں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دینی کام قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں طے کرنے کے بجائے اپنی وضع کردہ عقیدتوں اور خواہشات کی نذر کردیے ہیں، اور اس کا تعین ایک ایسا طبقہ کرتا ہے جو دینی فہم سے عاری و نابلد ہے۔"
مفتی منیب الرحمان نے قرآن و سنت کی روشنی میں پوری قوم خصوصاً اپنے مکتب فکر کے علماء کرام و مشائخ کی صحیح رہنمائی فرما دی ہے کہ وہ میلاد النبیﷺ کی ہر محفل کو سیرت النبیﷺ سے مزئین کرکے اپنی قوم کو قدم بہ قدم نقش پائے مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کا سلیقہ اور طریقہ سکھائیں۔
پوری دنیا کے مسلمان اگر سال کے 365 دن خاتم النبیین رسول مقبول حضرت محمد مجتبیﷺ کے امتی ہونے پر شکر ادا اور تادم مرگ اپنی سیرت کو سیرت النبیﷺ سے مزئین کرنے کی سعی کریں تو بھی ہم امت محمدی کا حصہ ہونے کی نعمت عظمیٰ کا شکر اور حق ادا نہیں کرسکتے۔
اگرچہ بہت دیر ہوچکی ہے مگر دیر آید درست آید کے مصداق اب مفتی منیب الرحمان صاحب کے واضح فتوی کے بعد علماء کرام اور مشائخ عظام کو عید میلاد النبیﷺ کی مجالس کو شریعت محمدی کے مطابق بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اور وعظ و نصیحت سے بڑھ کر عملی ترتیب کے اقدم اٹھانا ہوںگے، کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے تو اس معاملے میں ریاست کو حقیقی ماں کا کردار ادا کرکے اپنا حق ادا کرنا ہوگا، میری طرح عشق نبیﷺ کے دعویدار امتی محمدی کے ہر فرد کو سیرت النبیﷺ اپنانے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ عشق مصطفٰیﷺ کا تقاضا ہے کہ ہم سال کے 365 دن اتباع رسول اللہ میں گزاریں۔ ولادت مصطفیﷺ سے اطاعت مصطفی ﷺ تک شریعت مطہرہ پر عمل کرکے ہی ہم رضائے الٰہی اور شفاعت شافع محشر کے حقدار بن سکتے ہیں اس کے برعکس کرینگے تو نجات کے بجائے نقصان کا سودا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مفتی منیب رسول اللہ کے مطابق کی اتباع کرتا ہے اللہ کی
پڑھیں:
جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمار اشد نسیم سکرنڈ میں جلسہ سیرت النبی ؐ سے خطاب کر رہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-08-29