Express News:
2025-09-17@21:46:13 GMT

کونساگناہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

فلم کانام ہے ،کہاں سے کہاں تک ۔آواز لتا منگیشکرکی ہے ، ابھی نیتری کا نام مدھوبالا ہے ، بول حسرت ارمان پوری کے ہیں اورموسیقی پولیس بینڈ نے ترتیب دی ہے، سیچوئشن ایک جیل کا دروازہ ہے … آواز آسمان سے آرہی ہے یعنی آکاش والی

 نہ ہنسو ہم پہ زمانے کے ہیں ٹھکرائے ہوئے

 در بہ در پھرتے ہیں تقدیر کے بہکائے ہوئے

 جب آواز لتا کی ہو اوراداکاری مدھوبالا کی ہو تو ہنسی سے بھی رونے کی آواز آتی ہے اورقہقہہ بھی چیخ بن جاتا ہے چنانچہ اس گیت کو بھی سن کر اوپر اٹک پل پر ٹریفک جام ہوگیا اورنیچے دریا پانی پانی ہورہا ہے

کیابتائیں تمہیں کل ہم بھی چمن والے تھے

 یہ نہ پوچھو کہ اس ویرانے میں کیوں آئے ہوئے ہیں

 بیچاری مدھوبالا کو ذرا غور سے دیکھیے ظالمہ نے چہرے پر وہ تاثرات سجائے ہوئے ہیں جیسے کسی جادو گر نے غم اوردرد دونوں کو ملا کر اورآنسوؤں کو گوندھ کرچہرہ بنایا ہوا ہو اورپھر اوپر سے یہ اعتراف شکست کہ

 بات کل کی ہے کہ پھولوں کو مسل دیتے تو

 آج کانٹوں کو سینے سے لپٹائے ہوئے

 ہیلی کاپٹر سے ہیں قید خانے میں ٹپکائے ہو

آخری شعر قطعی مختلف ہے اس میں بہت سارے سبز اورنیلے پیلے باغ لہلہا رہے ہیں

 وہی بوڑھی ضعیف اورلڑکھڑاتی ہوئی بوڑھی امید جو پنڈورا کے بکس سے آخر میں نکلی تھی

ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوں گی

 اسی امید سے ہم دل کو بہلائے ہوئے

 قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے کسی کو بہت جلد مکافات عمل سے گزرنا پڑجاتا ہے اورکسی کو سیاستدانوں کی طرح کافی لمبی مدت مل جاتی ہے ۔

 اب جس مدھوبالا کاذکر ہم کر رہے ہیں اورجو آج کل یہی گانا بڑی دلسوزی سے گارہی ہے، اس کے اعمال کی فہرست اتنی لمبی تو نہیں ہے لیکن اس میں بعض اعمال ایسے ہیں جو وزن میں بہت بھاری ہیں ۔

 مثلاً دوسروں میں سے اکثر جو کچھ بیچتے رہے ہیں وہ محض کہنے سننے کی حد تک ہوتا ہے، کسی نے روٹی کپڑا مکان بیچا ،کسی نے سوشلزم بیچا، کسی نے اسلامی نظام سجایا، شریعت محمدی ، نظام مصطفیٰ، فلاحی مملکت ،حقیقی جمہوریت وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ان صاحب نے توحد کردی اس مقدس پاکیزہ اوربابرکت چیزکے نام لے لے کر سیاسی کھلواڑ کیا جو دنیا میں پہلی بار صرف ایک مرتبہ ظہورپذیرہوچکی ہیں جن کی مثال نہ کبھی پہلے تھی، نہ اب ہے نہ پھر کبھی ہوسکتی ہے ، ریاست مدینہ ،جس پر دل نثار ہوناچاہیے ، وہ جو دوعالم کی سب سے پاک ومطہرہستی تھی اس پر کوڑے پھینکے گئے تھے، ہرطرح کی ایذائیں دی گئی تھیں جن پر زندگی اتنی تنگ کردی گئی کہ انھیں اپنا آبائی اورجدی پشتی وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور وہاں بھی چھین سے نہیں رہنے دیا گیا ، پھر آزمائش کی گھڑیاں گزرگئیں اور وہ ریاست وجود میں آگئی ۔ اس کے بعد بھی مظالم کا سلسلہ چلتا رہا ۔ وہ ریاست جس کے قیام میں کتنا مقدس خون بہایا گیا ، یہ ہرکسی کو معلوم ہے، چارخلفائے راشدہ میں صرف ایک حضرت ابوبکر صدیق قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے تھے، باقی تین کاخون بہایا گیا اورپھر اس عظیم ہستی کے جگر گوشوں پر جگر تراش مظالم ۔

اوریہاں ایک شخص اٹھتا ہے اوراس مثالی ریاست کا نام لے لے کر اپنا چورن گلی کوچوں میں بیچنے لگا ، نہ کسی کو ذرا سی شرم آئی نہ حیا، اتنی دیدہ دلیری کی توقع تو کسی غیر سے بھی نہیں ہوسکتی ۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہٹا دیجیے تو ان کے اعمال ان لوگوں جیسے تھے جن کے مونہوں سے شراب کے بھبھکے چار چار گزدورتک پہنچتے تھے جن کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ کم ازکم ظاہری حلیہ تو تھوڑا سا بدل دیں، کس دھڑلے سے ریاست مدینہ ، ریاست مدینہ اورایک دوسرے کو صادق وامین کہنے لگے ، سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کوئی انسان اتنا ڈھیٹ اوراتنا بے شرم بھی ہوسکتا ہے کہ خود کو وہ ہستیاں سمجھے اورقراردے جن کے خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں۔

مذہب کے نام پر جو کھلواڑ کیے جارہے ہیں جو توہین وتضحیک کی جارہی ہے جس بے دردی ،بے شرمی اوردھڑلے سے سودے بیچے جارہے ہیں ان کاکچھ تو’’بدلہ‘‘ ملناچاہیے اوروہ مل رہا ہے یہ جو ہمارے ارد گرد ہورہا ہے یہ کیا ہے ایک سزا ہی تو ہے ۔

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

 اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

’’مارنا‘‘ تو اس ملک میں ابتداء ہی سے ’’روا‘‘ تھا اورہے

ہمیں اکثر محترمہ تہمینہ دولتانہ کی وہ بات یاد آتی ہے کہ معلوم نہیں ہم سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ جس کی پاداش میں ہم پر کرپٹ سیاستدان کو مسلط کیاگیا، صرف کرپٹ سیاستدان ہی کیا ؟ آج تک جو بھی ہم پر مسلط کیاجاتا رہا ہے وہ اس گناہ کی پاداش میں ہے جو ستتر سال بلکہ ڈیڑھ صدی سے کیے جارہے ہیں ، اور مذہب کو ہروقت ہرجگہ ہرشکل میں بیچ رہے ہیں اوراب ریاست مدینہ کو بھی بیچنے لگے ۔ اورپھر بھی کہتے ہیں ، ہم سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریاست مدینہ رہے ہیں کسی کو

پڑھیں:

آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔

اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست کوتسلیم نہیں کریگا: جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • مدینہ ایئرپورٹ کی مرکزی شاہراہ کا نام ولی عہد محمد بن سلمان سے منسوب کرنے کا فیصلہ
  • عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کا بیان 24 کروڑ عوام کی آواز ہے: جاوید اقبال بٹ
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟علی امین گنڈاپور
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟