نیپال: عبوری پی ایم کی سفارش پر پارلیمنٹ تحلیل، عام انتخابات کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
نیپال میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے جہاں ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس سشیلا کارکی کے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعدپارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا ہے اورنئے عام انتخابات 5 مارچ 2026کو کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق، پارلیمنٹ کی تحلیل کا فیصلہ عبوری وزیراعظم کی سفارش پر کیا گیا۔ عبوری وزیراعظم سشیلا کارکی بدعنوانی کے خلاف سخت مؤقف اور سپریم کورٹ کی سابق چیف جسٹس کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ منصب پر رہتے ہوئے انہوں نے کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی، تاہم بعد ازاں عوامی دباؤ پر ان کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہو گئی اور انہوں نے خود استعفیٰ دے دیا تھا۔
ادھرفوج نے دارالحکومت کھٹمنڈو کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ سیاسی بے چینی کے باعث سابق وزرائے اعظم، کابینہ ارکان، پارلیمنٹ اور عدالتوں کی عمارتوں کو نذرِ آتش کیا جا چکا ہے۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں کئی دنوں سے جاری احتجاج اور بدامنی میں اب تک 51 افراد ہلاک اورسینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ، صدارتی محل اور دیگر اہم سرکاری عمارتوں پر حملے کیے، جبکہ سوشل میڈیا پر پابندی کے باوجود ملک گیر مظاہرے جاری رہے۔ احتجاج میں درجنوں گاڑیاں اور عمارتیں جلا دی گئیں، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
احتجاج کی بڑی وجوہات بدعنوانی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری بتائی جا رہی ہیں، جس نے عوامی غصے کو ملک گیر تحریک میں تبدیل کر دیا۔
ادھر وزیرداخلہ رمیش لیکھک، وزیر زراعت رامناتھ ادھیکاری اور دیگر اہم وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے، جبکہ وزیراعظم کھگندر پرساد اولی بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔ فوج نے اہم وزراء کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔صدررام چندر پاؤڈل نے عوام سے پرامن رہنے اور خون خرابے سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کر دیا
پڑھیں:
استنبول مذاکرات: عبوری رضامندی اور خطے میں امن کی جانب پیش قدمی
گزشتہ 6 روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیشرفت حاصل کرنا تھا۔
افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشتگرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔
یہ مذاکرات کئی مواقع پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔
مزید پڑھیں:افغان طالبان کی اندرونی دھڑے بندیوں نے استنبول مذاکرات کو کیسے سبوتاژ کیا؟
تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔
آج ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
01: فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحا میں طے شدہ فائربندی کو پختہ بننے کے قصد سے مذاکرات کیے۔
02: تمام پارٹیوں نے سیز فائر کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی نہ ہو: اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے بعد کون سا احتجاج؟ خواجہ آصف کی ٹی ایل پی پر تنقید
03: مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔
04: ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور ویریفیکیشن میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی پر سزا عائد کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔
05: ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان، فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں اطراف کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ کمال کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہو گیا۔
اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیشرفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگِ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو دشمنوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے جو بات ہوگی تحریری ہوگی اور ترکیہ اور سعودی عرب کی گواہی میں ہوگی، وزیر دفاع خواجہ آصف
پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح اعلان ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا ہرگز نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پُرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول مذاکرات افغانستان پاکستان ترکیہ قطر