کھیلوں کے فروغ کی ضرورت کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
کھیل کے لفظی معنی تفریح یا مقابلے کے لیے جاتے ہیں جو کسی اصول اور ضابطے کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ انگریزی میں Sports کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، عام طور پر اس کے ایک ہی معنی لیے جاتے ہیں جوکہ صحیح نہیں ہے، اپنی نوعیت کے لحاظ سے دونوں میں واضح فرق ہے۔
ایسے کھیل جس میں جسمانی صلاحیت کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے اسے اسپورٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے کھیل جس میں دماغی اور ذہنی صلاحیت کو اولین حیثیت حاصل ہو، اسے گیمز Games کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اسپورٹس کے قوانین قدرے سخت ہوتے ہیں، اس میں جہاں تفریح اور لطف اندوزی کا عنصر شامل ہوتا ہے، وہاں سخت مقابلے کے عنصر کو بھی خصوصی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، باکسنگ ایسے کھیل ہیں جن کا شمار اسپورٹس میں کیا جاتا ہے اس کے برعکس گیم کے قوانین اسپورٹس کے مقابلے میں قدرے نرم اور لچک دار ہوتے ہیں، اس میں ہار جیت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
تاہم اس میں عموماً تفریح، خوشی، وقت گزاری اور سماجی روابط کے عنصرکو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیڈو،کیرم اور شطرنج کا شمار گیم میں کیا جاتا ہے۔
ایسے کھیل جو کھلی جگہ بالخصوص میدانوں میں کھیلے جاتے ہیں، انھیں Out Door گیمز یا اسپورٹس کا نام دیا جاتا ہے اور ایسے کھیل جو چار دیواری میں کھیلے جاتے ہیں انھیں In Door گیمز یا اسپورٹس کا نام دیا جاتا ہے۔
تاریخی حوالے سے کھیل کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ انسانی تہذیب کو بنانے اور سنوارنے میں جس طرح ادب، فلسفہ اور فنون لطیفہ کا ایک اہم کردار رہا ہے، اسی طرح کھیل کے عنصر نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کھیل آج بھی انسان کی کردار سازی، باہمی رواداری اور عالمی بھائی چارے کے لطیف ترین جذبات کو فروغ دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آج عسکری، سیاسی اور معاشی میدان میں انھیں قوموں کو عروج حاصل ہے جو کھیل کے میدان میں سرفہرست ہیں۔
کھیل بالخصوص اسپورٹس میں انسانی جسم کے تمام اجزا متحرک رہتے ہیں اس سے انسان کی جسمانی صلاحیتوں کی نشو نما میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے انسان بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، اس طرح کھیل ہمارے جسم کو صحت مند، تندرست اور توانا رکھتے ہیں۔
گیم میں حصہ لینے سے ہماری ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ گیم فیصلہ سازی، حکمت عملی، قائدانہ صلاحیت جیسی صفات پیدا کرتے ہیں، یہ صفات انسان کی عملی زندگی میں مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔کھیل سے ہمارے جسم میں ایسے ہارمونز کی افزائش کو فروغ ملتا ہے جنھیں ہپی ہارمونز کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ ہمارے اندر خوشی کی لہر پیدا کرتے ہیں، جس کی بدولت ہماری صحت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس سے ہمیں ذہنی تناؤ، بے چینی اور ڈپریشن کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔ ہر کھیل میں قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی کرنی ہوتی ہے، اس طرح کھیل ہمیں نظم و ضبط کا پابند بناتے ہیں۔
اس سے ہمارے اندر قانون کا احترام پیدا ہوتا ہے جو ایک مہذب معاشرے کے لیے ضروری ہے۔کھیل ہمارے جذبات کو کنٹرول کرکے اسے مثبت سمت فراہم کرتے ہیں، کھیلوں کو فروغ دے کر ہم فرقہ واریت، لسانی تعصبات، علاقائی عصبیت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
بچے فطری طور پر کھیل کے شوقین ہوتے ہیں ان بچوں کے لیے کھیل کو تعلیمی اوزارکے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کھیل بچوں کی جسمانی صلاحیت کے ساتھ دماغی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرتے ہیں، اس سے ان کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ تب ہی ممکن ہے جب بچوں کو چار دیواری کے اندرکھیلوں کی ترغیب کے ساتھ ساتھ انھیں باہر کھیلنے کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں۔ کھیلوں کی اس اہمیت کو پیش نظر رکھ کر کوئی ذی شعور کھیلوں کے فروغ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں وہ کیا رکاوٹیں ہیں جن کے باعث کھیلوں کو فروغ حاصل نہ ہو سکا۔ میرے نزدیک اس میں بڑی رکاوٹ ان والدین کا کردار ہے جو کھیلوں کو بچے کے لیے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، انھیں امتحانات میں بہترین نتائج کے حصول کے لیے محض بچے کے نصاب کو ختم کرانے کی فکر لگی رہتی ہے جس کے لیے وہ بچوں کے کھیل کی اہم سرگرمیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ کھیلوں کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے عمل دخل نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے بالخصوص انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے عوام الناس بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کو کھیلوں کی سرگرمیوں سے دورکردیا ہے۔
موجودہ دور میں انٹرنیٹ کا استعمال ایک لت اور نشے کی شکل اختیار کر گیا ہے جس نے عوام الناس کو حقیقی زندگی سے دور کرکے اسے سماجی تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔ بے مقصدیت، قیمتی وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ بے حیائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، اس سے سماجی اقدار کا بھی نقصان ہو رہا ہے اور جسمانی صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ایسے حالات میں کھیلوں کے فروغ دینے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کھیل اور تعلیم ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ کھیل کو بھی خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور اسے غیر نصابی سرگرمیوں کا نام دے کر بچوں کو اس جانب متوجہ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار تو تعلیم سے ہی واجبی دلچسپی رکھتے ہیں، کھیل پر توجہ دینا تو بہت دورکی بات ہوگی۔ کسی زمانے میں کھیل کے میدان کے بغیر ہائی اسکول کا تصور اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، اب آپ کو کوئی اسکول کھیل کے میدان کے بغیر نظر آئے تو یہ کوئی انہونی بات نہ ہوگی۔
کھیل کے فروغ میں رکاوٹ کی تیسری بڑی وجہ کھیل کے میدانوں کی کمی ہے۔ بالخصوص کراچی شہر میں کھیل کے میدانوں کا فقدان ہے، بعض کھیل کے میدان کمرشل بنیادوں پر میسر ہیں جن کا حصول متوسط طبقے کے نوجوانوں کے لیے ممکن نہیں جو میدان میسر بھی ہیں تو ان پر ناجائز تعمیرات نے رہی سہی کسر پوری کر دی، ایسی صورت میں کھیلوں کو کس طرح فروغ دیا جائے گا، اس کا بہتر جواب تو پالیسی ساز ادارے ہی دے سکتے ہیں۔
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں ہے جس کی آبادی کا 64 فی صد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہم انھیں اچھے طریقے سے بروئے کار لا کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کو بھی فروغ دیں۔ میرا ای میل ایڈریس تبدیل ہو گیا ہے، پڑھنے والے نوٹ فرما لیں:
[email protected]
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا نام دیا جاتا ہے کھیلوں کے فروغ کھیل کے میدان کیا جاتا ہے ایسے کھیل کھیلوں کو کرتے ہیں میں کھیل جاتے ہیں ہوتے ہیں ہوتی ہے سے کھیل ہوتا ہے حاصل ہو کو فروغ کے ساتھ ہیں جن کے لیے
پڑھیں:
چھ طیارے تباہ، جنگ ہاری، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے: وزیر اطلاعات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جو معاشرے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ کھیلوں کے میدانوں میں سیاسی مداخلت کرنے لگتے ہیں، جنہوں نے چھ طیارے گرائے، جنگ ہاری اور اب کرکٹ میں ہاتھ نہ ملانے کی باتیں کر رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی رسوائی چھپانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔
یہ بات وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے قومی پیغام امن کمیٹی کے افتتاحی اجلاس کے اختتام پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔
عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ اخلاقی تنزلی کی زد میں آنے والے گروہ کھیلوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، تاکہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہلکا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں، کھیلوں کی روح اور اسپورٹس مین شپ کو زندہ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ اقوام کی عزت اور اتحاد کی علامت ہوتی ہے۔
ایک صحافی کے سوال پر کہ کیا آئی سی سی نے پاکستان کی درخواست پر میچ ریفری کو تبدیل کردیا ہے؟ عطاء تارڑ نے جواب دیا کہ اس بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی زیادہ بہتر طور پر وضاحت کرسکتے ہیں۔ تاہم، میرے خیال میں ریفری کو اپنے فرائض کی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے تھا اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو تنازعات کو جنم دیں۔ آگے کا فیصلہ پی سی بی کرے گا، جو کھیلوں کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔
دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے زور دیا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوتا، وہ صرف پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ امن کی بحالی ناگزیر ہے، اور جو سکولوں میں نہتے بچوں پر رحم نہیں کرتے، ان کا کوئی دین ایمان نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی ریاست پاکستان اور اس کے شہریوں کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے، اس کے سہولت کاروں کو دہشت گرد قرار دینے پر سب متفق ہیں، اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے معاون بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے خود حملہ آور۔، جو کوئی دہشت گردوں کو پناہ دے یا ان کی مدد کرے، وہ بھی دہشت گردی کا حصہ ہے، چاہے اس کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہو یا مذہبی گروپ سے۔ قوم نے اب تک نوے ہزار سے زائد جانیں قربان کی ہیں، اور ایسے عناصر کو کسی رعایت کی گنجائش نہیں۔