ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق اگر چربی والے جگر کے مریضوں کو بلند فشارِ خون (بلڈ پریشر)، ذیابطیس یا نارمل کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل) کی کمی کا سامنا ہو تو ان میں قبل از وقت موت کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔

یہ تحقیق کلینیکل گیسٹرو اینٹرولوجی اینڈ ہیپاٹولوجی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک مرض بلڈ پریشر ہے جو چربی والے جگر کے مریضوں میں موت کا امکان 40 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ ذیابطیس یا پری-ذیابطیس سے یہ خطرہ 25 فیصد اور ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی کمی سے 15 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں بڑی طبی پیشرفت، جگر کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ

تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر میتھیو ڈیوکووچ کا کہنا ہے کہ اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ذیابطیس سب سے خطرناک ہے لیکن نتائج سے پتا چلا کہ بلند فشارِ خون زیادہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

عالمی اعداد و شمار

دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی کو چربی والے جگر یا میٹابولک ڈس فنکشن ایسوسی ایٹڈ اسٹیٹوٹک لیور ڈیزیز (MASLD) لاحق ہے۔ یہ بیماری جگر میں چربی جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے جس کے باعث جگر کو نقصان اور آخرکار داغ پڑ جاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر موٹاپے، ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، بلند شوگر اور ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی کمی سے منسلک ہے۔

تحقیق کی تفصیل

امریکی محققین نے 22 ہزار افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جو 1988 سے 1994 اور 1999 سے 2018 تک نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامینیشن سروے میں شامل تھے۔ نتائج کے مطابق ایک اضافی مرض کے ساتھ موت کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ 2 بیماریوں کے ساتھ یہ خطرہ 66 فیصد ہو جاتا ہے، بیماریوں کے ساتھ 80 فیصد بڑھ جاتا ہے جبکہ 4 بیماریوں کے ساتھ خطرہ دوگنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جگر کی چربی ختم کرنے کے لیے یہ زبردست قہوہ پیجیے

مزید یہ کہ جتنا کسی فرد کا باڈی ماس  انڈیکس زیادہ ہوگا اتنا ہی اس کے مرنے کا امکان بڑھتا ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر نورہ ٹیرالٹ کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ڈاکٹروں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ وہ فاتی لیور کے مریضوں کا علاج کرتے وقت کن عوامل پر زیادہ توجہ دیں تاکہ بہترین دیکھ بھال فراہم کی جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلڈ پریشر تحقیق جگر چربی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلڈ پریشر چربی والے جگر بیماریوں کے کے مریضوں بلڈ پریشر کے ساتھ موت کا

پڑھیں:

روایتی کھاجا

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی چیز ہمیں میسر نہیں تو ہم اس کاذکر بھی نہ کریں ، ہم کھانے پینے کی چیزوں کی بات کر رہے ہیں ۔

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

 نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں

 نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کھانے کے سلسلے میں ’’پیزا‘‘ آج کل فیشن ایبل دنیا کا بیسٹ سیلر ہے ، کہتے ہیں کہ یہ اٹلی سے آیا ہے لیکن یہ سن کر آپ حیران ہوجائیں گے کہ یہ یہاں سے اٹلی کو گیا ہے ،ہمارے پشتونخواہ میں مکئی کی روٹی کو ’’پیاسا‘‘ کہتے ہیں خاصا طور پر جنوب میں، اوراس لیے کہتے ہیں کہ اکثراس پیاسا میں کٹی ہوئی پیاز ملا کر پکایا جاتا ہے، اسے ’’پیازہ‘‘ یا پیازی یا پیاز کی روٹی کہا جاتاتھا لیکن اس ’’پیازے ‘‘ میں پھر پیاز کے ساتھ ٹماٹر اورپھرمرچ بھی شامل ہوگئے ،آگے چل کر اس میں کٹی ہوئی سبز دھنیا اورپودینہ بھی ملایا جانے لگا، پھر آہستہ آہستہ اس میں سبز میتھی بھی شامل ہوگئی اورجدید پیازے میں تو لوگ قیمہ بھی ملادیتے ہیں ، یوں یہ ایک طرح تندوری کباب بن گیا ہے جو چائے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے لیکن بنیاد پیازو یا پیاسہ ہے ۔

یہ تو اس کی نمکین شکل ہوگئی لیکن شمال یعنی سوات اپر اورچترال یاکوہستان میں اس کی شیرین شکل بھی مروج ہے ، مکئی کی میٹھی روٹی میں اخروٹ، مونگ پھلی، ناریل اوربادام شامل کیاجاتا ہے ، تھوڑی سی خشحاش یا تل اورسونف بھی اس میں ہوتا ہے یہ چونکہ دیرتک خراب نہیں ہوتی اس لیے تحفے میں بھی دی جاتی ہے اور لی جاتی ہے ، مسافرت میں بھی ساتھ رکھی جاتی ہے اور غیر ممالک میں اپنے پیاروں کو بھی گھروں سے بھیجی جاتی ہے یہ گویا مکئی کا فروٹ کیک ہوتا ہے۔

انھی پہاڑی علاقوں میں گندم کی جو روٹی بلکہ پراٹھا پکتا ہے اسے ’’ویشلی‘‘ کہتے ہیں، عربی میں جنر اور انڈین ڈوسے کی طرح اس کاآٹا گوندھا نہیں جاتا بلکہ زیادہ پانی ڈال کر بنائی جاتی ہے پھر توے پر دیسی گھی ڈال کر پیالے کے ذریعے ڈالا جاتا ہے اورممکن حد تک پھیلا کر پراٹھا بنایا جاتا ہے ،اسے زیادہ پکا کر خستہ اور پاپڑ کی طرح کڑک اورکرسپی بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن کمال کی چیز وہ اجتماعی پکوان ہوتا ہے جسے ڈی آئی خان میں ’’پینڈہ‘‘ کہاجاتا ہے ، کھانا ہو تو کسی دن مولانا صاحب کے مہمان بن جائیے وہ بڑا اچھا پینڈہ پکواتے اورکھلاتے ہیں ، اسی پینڈے کو بنوں میں صحبت بھی کہاجاتا ہے ۔

دیسی مرغے مرغیوں کو ضرورت کے مطابق پکایا جاتا ہے اوراس میں نہایت ہی مصالحے دارشوربا اکثر دیسی گھی میں بنایا جاتا ہے پھر ایک بڑے گول برتن میں اسے نکالا جاتاہے، کوشش کی جاتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی برتن کے گرد گول دائرے میں بیٹھ کر اکٹھے کھاسکیں ، آدمی زیادہ ہوں تو برتن زیادہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پینڈے یا سوبت میں اکٹھے بیٹھیں ، ہمارے گورنر اوروزیراعلیٰ بھی ’’پینڈے‘‘ والے علاقے کے ہیں ۔

اس شوربے میں خمیری روٹی کے نوالے ڈالے جاتے ہیں اور نرم ہونے پر کھایاجاتا ہے، اکثر تو ابتداء میں ایک دوسرے کے منہ میں نوالہ ڈال کر کی جاتی ہے ، ہرفرد اپنے دائیں بیٹھنے والے سے شروع کرتا ہے ، بوٹیاں یاتو اسی برتن میں ڈالی جاتی ہیں یاالگ برتن میں پیش کی جاتی ہیں، کہیں کہیں انھیں دوبارہ بریان بھی کیاگیا ہوتا ہے ۔ لیکن صوابی کایوسف زئی ’’کٹوہ‘‘ اگرچہ بنوں کے سوبت اور ڈی آئی خان کے پینڈے جیسا ہوتا ہے لیکن ان سے کچھ مختلف بھی ہوتا ہے ، ایک تو یہ کہ اس کادائرہ صرف مرغی مرغے تک محدود نہیں ہے بلکہ چھوٹا بڑا گوشت بھی اس میں شامل ہوتا ہے کیوں کہ یہ محدود دعوتوں کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کی بڑی دعوتوں میں ہوتا ہے ۔

’’کٹوہ ‘‘ ک اورٹ کے زیرسے دراصل ہانڈی کو کہتے ہیں لیکن یہ ہانڈی کچھ لمبوتری چھوٹے مٹکے کی طرح ہوتی ہے جس میں پانچ دس سیر تک گوشت پکایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ میں ہوتا یوں ہے کہ چھوٹا یا بڑا گوشت سرشام ہانڈیوں میں مناسب مقدار کے پانی کے ساتھ ڈالا جاتا ہے پھر ان ہانڈیوں کو چولہوں پر چڑھایا جاتا ہے۔ کٹوہ کے اپنے ماہرین ہوتے ہیں اورکٹوؤں کی تعداد ہرآدمی کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے جو دس سے لے کر پچاس ساٹھ تک بھی ہوسکتی ہے ، کٹوے چولہوں پر چڑھادیتے ہیں اوران کے نیچے دھیمی آنچ کی آگ جلا دی جاتی ہے ، نگران ساری رات اس آگ کو جلائے رکھتے ہیں اورمناسب مرحلوں میں نمک مرچ اورمسالے ڈالے جاتے ہیں ۔

صبح تک گوشت اچھی طرح گل چکا ہوتا ہے اوراس میں بڑا لذیذ شوربا بن چکا ہوتا ہے جب کھانے والے آناشروع ہوجاتے ہیں تو مٹی کے چوڑے برتنوں میں یہ گوشت اورشوربا پیش کیا جاتا ہے ، ساتھ ہی خمیری روٹیاں بھی جو الگ سے تندور میں لگاتی گئی ہوتی ہیں ، کھانے والے اس میں نوالے ڈال کر اوربھگو بھگو کر کھاتے ہیں ۔ شادی بیاہ کے علاوہ بھی بڑی تقریبات میں کٹوہ ہوتا ہے ، کچھ عرصہ پہلے ایک ’’تمباکو کنگ‘‘نے اپنے بیٹے کے الیکشن میں ایک ماہ تک دو بھینسوں کاکٹوہ روزانہ ووٹروں کو کھلایا تھا ، یہ کٹوہ ہی کی برکت تھی کہ اس سیٹ پر مخالف امیدوار کو شکست دی گئی تھی جو بہت بڑی اپ سیٹ تھی جو کٹوہ کی برکت سے ہوئی ۔

آج کل یہ کٹوہ ہوٹلوں اورڈھابوں میں بھی مروج اورمقبول ہے ۔لیکن عام کٹوہ بنوں اورڈی آئی خان کی طرح مرغامرغیوں کا ہوتا ہے ، تھوڑا سافرق یہ ہوتا ہے کہ اب یہ ایک دائرے کے بجائے دسترخوانوں اورمیز کرسیوں پر بھی ہوتا ہے، کہیں کہیں پر شوربے کے ساتھ بڑی تعداد میں بھی ہوتا ہے ، بوٹیاں بھی الگ پلیٹوں یا سیخوں میں پیش کی جاتی ہیں اورکہیں کہیں اضافی دیسی گھی بھی الگ برتنوں میں پیش کیاجاتا ہے جس میں سے کھانے والے اپنی خواہش کے مطابق لے کر اپنے سامنے ڈالتے ہیں جو اکثر حریص کھانے والوں کے لیے مصیبت بھی بن جاتا ہے وہ اسے ٹھونس تو لیتے ہیں لیکن بعد میں پچھتاتے ہیں کہ ہاضمہ پر بوجھ بن جاتا ہے اورپیاس کاہوکا لگ جاتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • روایتی کھاجا
  • عالمی پانی کا نظام غیر مستحکم ہوگیا ، سیلاب اور خشک سالی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے . عالمی موسمیاتی ادارہ
  • گولڈ بلین کیا ہے اور اسکی حکمرانی کو کیا خطرہ درپیش ہے؟
  • بخار کی دوا سے متعلق تحقیق میں اہم انکشاف
  • خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟
  • خسرہ کے دنیا میں دوبارہ پھیل جانے کا خطرہ سر اٹھانے لگا
  • بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل
  • مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار
  • جنوب مشرقی ایشیا میں مصر سے بھی زیادہ پرانی ممیاں دریافت