Express News:
2025-09-20@00:25:23 GMT

روایتی کھاجا

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی چیز ہمیں میسر نہیں تو ہم اس کاذکر بھی نہ کریں ، ہم کھانے پینے کی چیزوں کی بات کر رہے ہیں ۔

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

 نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں

 نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کھانے کے سلسلے میں ’’پیزا‘‘ آج کل فیشن ایبل دنیا کا بیسٹ سیلر ہے ، کہتے ہیں کہ یہ اٹلی سے آیا ہے لیکن یہ سن کر آپ حیران ہوجائیں گے کہ یہ یہاں سے اٹلی کو گیا ہے ،ہمارے پشتونخواہ میں مکئی کی روٹی کو ’’پیاسا‘‘ کہتے ہیں خاصا طور پر جنوب میں، اوراس لیے کہتے ہیں کہ اکثراس پیاسا میں کٹی ہوئی پیاز ملا کر پکایا جاتا ہے، اسے ’’پیازہ‘‘ یا پیازی یا پیاز کی روٹی کہا جاتاتھا لیکن اس ’’پیازے ‘‘ میں پھر پیاز کے ساتھ ٹماٹر اورپھرمرچ بھی شامل ہوگئے ،آگے چل کر اس میں کٹی ہوئی سبز دھنیا اورپودینہ بھی ملایا جانے لگا، پھر آہستہ آہستہ اس میں سبز میتھی بھی شامل ہوگئی اورجدید پیازے میں تو لوگ قیمہ بھی ملادیتے ہیں ، یوں یہ ایک طرح تندوری کباب بن گیا ہے جو چائے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے لیکن بنیاد پیازو یا پیاسہ ہے ۔

یہ تو اس کی نمکین شکل ہوگئی لیکن شمال یعنی سوات اپر اورچترال یاکوہستان میں اس کی شیرین شکل بھی مروج ہے ، مکئی کی میٹھی روٹی میں اخروٹ، مونگ پھلی، ناریل اوربادام شامل کیاجاتا ہے ، تھوڑی سی خشحاش یا تل اورسونف بھی اس میں ہوتا ہے یہ چونکہ دیرتک خراب نہیں ہوتی اس لیے تحفے میں بھی دی جاتی ہے اور لی جاتی ہے ، مسافرت میں بھی ساتھ رکھی جاتی ہے اور غیر ممالک میں اپنے پیاروں کو بھی گھروں سے بھیجی جاتی ہے یہ گویا مکئی کا فروٹ کیک ہوتا ہے۔

انھی پہاڑی علاقوں میں گندم کی جو روٹی بلکہ پراٹھا پکتا ہے اسے ’’ویشلی‘‘ کہتے ہیں، عربی میں جنر اور انڈین ڈوسے کی طرح اس کاآٹا گوندھا نہیں جاتا بلکہ زیادہ پانی ڈال کر بنائی جاتی ہے پھر توے پر دیسی گھی ڈال کر پیالے کے ذریعے ڈالا جاتا ہے اورممکن حد تک پھیلا کر پراٹھا بنایا جاتا ہے ،اسے زیادہ پکا کر خستہ اور پاپڑ کی طرح کڑک اورکرسپی بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن کمال کی چیز وہ اجتماعی پکوان ہوتا ہے جسے ڈی آئی خان میں ’’پینڈہ‘‘ کہاجاتا ہے ، کھانا ہو تو کسی دن مولانا صاحب کے مہمان بن جائیے وہ بڑا اچھا پینڈہ پکواتے اورکھلاتے ہیں ، اسی پینڈے کو بنوں میں صحبت بھی کہاجاتا ہے ۔

دیسی مرغے مرغیوں کو ضرورت کے مطابق پکایا جاتا ہے اوراس میں نہایت ہی مصالحے دارشوربا اکثر دیسی گھی میں بنایا جاتا ہے پھر ایک بڑے گول برتن میں اسے نکالا جاتاہے، کوشش کی جاتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی برتن کے گرد گول دائرے میں بیٹھ کر اکٹھے کھاسکیں ، آدمی زیادہ ہوں تو برتن زیادہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پینڈے یا سوبت میں اکٹھے بیٹھیں ، ہمارے گورنر اوروزیراعلیٰ بھی ’’پینڈے‘‘ والے علاقے کے ہیں ۔

اس شوربے میں خمیری روٹی کے نوالے ڈالے جاتے ہیں اور نرم ہونے پر کھایاجاتا ہے، اکثر تو ابتداء میں ایک دوسرے کے منہ میں نوالہ ڈال کر کی جاتی ہے ، ہرفرد اپنے دائیں بیٹھنے والے سے شروع کرتا ہے ، بوٹیاں یاتو اسی برتن میں ڈالی جاتی ہیں یاالگ برتن میں پیش کی جاتی ہیں، کہیں کہیں انھیں دوبارہ بریان بھی کیاگیا ہوتا ہے ۔ لیکن صوابی کایوسف زئی ’’کٹوہ‘‘ اگرچہ بنوں کے سوبت اور ڈی آئی خان کے پینڈے جیسا ہوتا ہے لیکن ان سے کچھ مختلف بھی ہوتا ہے ، ایک تو یہ کہ اس کادائرہ صرف مرغی مرغے تک محدود نہیں ہے بلکہ چھوٹا بڑا گوشت بھی اس میں شامل ہوتا ہے کیوں کہ یہ محدود دعوتوں کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کی بڑی دعوتوں میں ہوتا ہے ۔

’’کٹوہ ‘‘ ک اورٹ کے زیرسے دراصل ہانڈی کو کہتے ہیں لیکن یہ ہانڈی کچھ لمبوتری چھوٹے مٹکے کی طرح ہوتی ہے جس میں پانچ دس سیر تک گوشت پکایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ میں ہوتا یوں ہے کہ چھوٹا یا بڑا گوشت سرشام ہانڈیوں میں مناسب مقدار کے پانی کے ساتھ ڈالا جاتا ہے پھر ان ہانڈیوں کو چولہوں پر چڑھایا جاتا ہے۔ کٹوہ کے اپنے ماہرین ہوتے ہیں اورکٹوؤں کی تعداد ہرآدمی کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے جو دس سے لے کر پچاس ساٹھ تک بھی ہوسکتی ہے ، کٹوے چولہوں پر چڑھادیتے ہیں اوران کے نیچے دھیمی آنچ کی آگ جلا دی جاتی ہے ، نگران ساری رات اس آگ کو جلائے رکھتے ہیں اورمناسب مرحلوں میں نمک مرچ اورمسالے ڈالے جاتے ہیں ۔

صبح تک گوشت اچھی طرح گل چکا ہوتا ہے اوراس میں بڑا لذیذ شوربا بن چکا ہوتا ہے جب کھانے والے آناشروع ہوجاتے ہیں تو مٹی کے چوڑے برتنوں میں یہ گوشت اورشوربا پیش کیا جاتا ہے ، ساتھ ہی خمیری روٹیاں بھی جو الگ سے تندور میں لگاتی گئی ہوتی ہیں ، کھانے والے اس میں نوالے ڈال کر اوربھگو بھگو کر کھاتے ہیں ۔ شادی بیاہ کے علاوہ بھی بڑی تقریبات میں کٹوہ ہوتا ہے ، کچھ عرصہ پہلے ایک ’’تمباکو کنگ‘‘نے اپنے بیٹے کے الیکشن میں ایک ماہ تک دو بھینسوں کاکٹوہ روزانہ ووٹروں کو کھلایا تھا ، یہ کٹوہ ہی کی برکت تھی کہ اس سیٹ پر مخالف امیدوار کو شکست دی گئی تھی جو بہت بڑی اپ سیٹ تھی جو کٹوہ کی برکت سے ہوئی ۔

آج کل یہ کٹوہ ہوٹلوں اورڈھابوں میں بھی مروج اورمقبول ہے ۔لیکن عام کٹوہ بنوں اورڈی آئی خان کی طرح مرغامرغیوں کا ہوتا ہے ، تھوڑا سافرق یہ ہوتا ہے کہ اب یہ ایک دائرے کے بجائے دسترخوانوں اورمیز کرسیوں پر بھی ہوتا ہے، کہیں کہیں پر شوربے کے ساتھ بڑی تعداد میں بھی ہوتا ہے ، بوٹیاں بھی الگ پلیٹوں یا سیخوں میں پیش کی جاتی ہیں اورکہیں کہیں اضافی دیسی گھی بھی الگ برتنوں میں پیش کیاجاتا ہے جس میں سے کھانے والے اپنی خواہش کے مطابق لے کر اپنے سامنے ڈالتے ہیں جو اکثر حریص کھانے والوں کے لیے مصیبت بھی بن جاتا ہے وہ اسے ٹھونس تو لیتے ہیں لیکن بعد میں پچھتاتے ہیں کہ ہاضمہ پر بوجھ بن جاتا ہے اورپیاس کاہوکا لگ جاتا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی جاتی ہے کہتے ہیں ہوتا ہے میں بھی کے ساتھ جاتا ہے ہیں اور ہے اور کی طرح ڈال کر پیش کی ہیں کہ

پڑھیں:

قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-7

 

جاوید احمد خان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کا نام لیے بغیر دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی حملے کی متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ پاکستان کے مطالبے پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مذمتی بیان برطانیہ اور فرانس نے تیار کیا۔ یہ بیان تمام 15 اراکین بشمول اسرائیل کے اتحادی امریکا کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ امریکا عام طور پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم قرارداد آتی ہے تو اس کو ویٹو کردیتا ہے لیکن اس بار سلامتی کونسل کی بیان کی حمایت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حملے میں ناراضی ظاہر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی حملہ یو این چارٹر اور قطر کی سلامتی کے خلاف قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے صرف قطر کو نہیں بلکہ عالمی امن کو نقصان پہنچایا ہے۔ سلامتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے کشیدگی میں کمی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، سلامتی کونسل کے بیان میں دوحا کو اہم ثالث قراردیا گیا جو اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات کے لیے امریکا اور مصر کے ساتھ کردار ادا کررہا ہے کونسل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ اور انسانی تکالیف کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہنگامی اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچنے والے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کونسل کی حمایت کا خیر مقدم کیا اور اپنے ملک کے ثالثی کردار کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

اس سے پہلے یہ بیان بھی نظر سے گزر چکا ہے کہ دوحا اب ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا لیکن اب سوچ تبدیل ہوگئی شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حملے کو پسند نہیں کیا۔ اسرائیل جو اس وقت بے نتھے کا بیل بنا ہوا ہے وہ جو چاہے کرتا پھرے کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس لیے کہ امریکا اس کی پشت پر ہے لیکن اسرائیل نے قطر میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی ہلے میں صاف کردینے کا فیصلہ کیا وہ الٹا اس کے گلے پڑگیا دوسرے لفظوں میں یہ بیک فائر ہوگیا۔ پہلی بات تو یہی کہ اسرائیل کا یہ کہنا کہ ہم نے امریکا کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کو اطلاع کردی تھی۔ کسی ہائر آفیشل کو اطلاع کردینے کا یہ مطلب کہاں سے ہوگیا کہ امریکی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا اور پھر اطلاع بھی حملے سے کچھ چند منٹ پہلے کی گئی اگر دو گھنٹے پہلے اطلاع دیتے تو خدشہ تھا کہ کہیں امریکا کی طرف سے قطر کے رہنمائوں کو مطلع کردیا جائے اور قطری حکام بروقت حماس رہنمائوں کو مطلع کرکے میٹنگ کینسل کروادیں یا اجلاس کی جگہ بروقت تبدیل کردی جائے۔ یعنی ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے۔ یہ بھی ہوجائے کہ ہم نے بروقت اطلاع کردی تھی اور حماس کی قیادت بچنے بھی نہ پائے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ واللہ خیرالمالکین اللہ بہترین چال چلنے والا ہے اسی کو ہم عام الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیںکہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت اس حملے سے کیسے بچ گئی۔ اسرائیل کے پا س ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ اپنے اہداف کے ٹھکانوں اور اس کی سرگرمیوں سے واقف رہتا ہے۔ دراصل موساد کے ایجنٹ پوری عرب دنیا کے ہر ملک کی جڑوں تک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایران میں پانچ لاکھ یہودی ہیں یہ سب تو موساد کے ایجنٹ تو نہیں ہوں گے لیکن ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ضرور ہوں گی۔ پھر دوحا اور سعودی عرب میں امریکی اسلحوں کے ذخائر اور امریکی اڈے ہیں ان میں پتا نہیں کتنے موساد کے ایجنٹ ہوں گے۔ ایران میں جن سائنسدانوں اور سینئر سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ اسرائیل نے تو اپنا بیس کیمپ ایران میں بنایا ہوا تھا اتنی بڑی تعداد میں موساد کے ایجنٹوں کا ہونا خود ایرانی حکومت کے لیے حیران کن تھا۔ بلکہ ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی کے ایک دفعہ ایران حکومت نے ایک کمیٹی بنائی کہ یہ کمیٹی ملک میں موساد کے ایجنٹوں کو تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے بعد میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ جس فرد کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا وہ خود موساد کا ایجنٹ ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں شروع میں ایرانی میزائل بے اثر جارہے تھے۔ اس لیے کہ حکومت ایران کو یہ شک ہوگیا کہ جہاں سے میزائل داغے جارہے ہیں وہیں کہیں موساد کے ایجنٹ نہ گھسے بیٹھے ہوں اس لیے جب ایران نے سمندر کے اندر سے میزائل مارے ان سے اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور وہ سیز فائر پر راضی ہوا۔

اسرائیل نے اپنے خفیہ نٹ ورک کے ذریعے ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا، اسی طرح اس نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ کو ان کے انتہائی محفوظ مقام پر شہید کیا، اسی طرح یحییٰ سنوار کو غزہ میں جنگ لڑتے ہوئے شہید کیا۔ اسرائیل کی کوشش یہ رہی ہے کہ حماس کی قیادت کو صاف کیا جائے تاکہ مذاکرات میں تاخیر ہو اسرائیل بظاہر تو دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں بادل نہ خواستہ شریک ہوتا رہا ہے لیکن وہ مذاکرات نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر میں حماس کی سینئر قیادت کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے تمام بین الاقوامی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے اس عمارت پر حملہ کردیا جہاں حماس کی قیادت جنگ بندی کے سلسلے میں امریکی تجاویز پر غور و خوض کے لیے جمع ہوئی تھی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حماس کے مرکزی رہنما اس حملے میں بچ کیسے گئے اس حوالے سے دو تھیوریز سامنے آرہی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما اور دیگر کی اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کی ٹیکنیک کو حماس کی قیادت سمجھ گئی اس لیے جب سارے رہنما جمع ہوگئے تو وہ عین وقت پر اپنے موبائل چھوڑ کر اس دوسری بلڈنگ میں چلے گئے جس کا راستہ اندر ہی سے تھا بعد میں دوسرے لوگ بھی جاتے لیکن اسی دوران حملہ ہوگیا چھے لوگ شہید ہوگئے، بقیہ حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے لیے گئے تھے اور اپنے موبائل وہیں چھوڑ گئے تھے کہ موبائل کی سم جگہ کی نشان دہی کے کام آتی ہے۔ بہرحال کوئی بھی اسٹوری ہو حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کا پروگرام ناکام ہوگیا لیکن ایک پہلو سے کامیابی بھی ملی کہ ساری توپوں کا رخ دوسری طرف ہوگیا اب او آئی سی کا اجلاس، عرب سربراہوں کا اجلاس اور دیگر اجلاس کی طرف سرگرمیاں ہوں گی اور اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ غزہ سٹی میں داخل ہوجائے گا اس ساری اسرائیلی کمینگی میں امریکا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ امریکا کی دوغلی پالیسی کا اندازہ لگائیے کے ٹرمپ ایک طرف تو قطر کے سربراہ کو فون کرکے دوحا کی حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروارہے ہیں اور دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملاقات کرکے کہہ رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اس کا مطلب ہے کل کو اسرئیل کسی اور عرب ملک پر حملہ کرسکتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔

حماس کے سربراہ خلیل الحیا تو اس حملے بچ گئے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو جہاں بھی جائے گی قتل کردیں گے ان ہی کے ساتھ خالد مشعل بھی ہیں جو حماس کا اصل دماغ ہیں اسرئیل ان کا بہت پہلے سے جانی دشمن ہے۔

1997 میں یہ اردن میں حماس کی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے اور وہاں سے وہ اسرائیل کے خلاف پراکسی وار کی منصوبہ بندی کرتے تھے ایک دفعہ ایک ہوٹل میں ان کی میٹنگ تھی وہاں اسرائیل کے آٹھ کمانڈوز آئے چھے تو باہر کھڑے رہے دو اندر گئے اور خالد مشعل کے قریب جاکر ان کے کان میں کوئی ایسی دوا ڈالی کہ وہ کومے میں چلے گئے خالد مشعل کے گارڈز نے ان دونوں کمانڈوز کو پکڑلیا باقی چھے جو باہر تھے وہ بھاگ لیے یہ دونوں جیل چلے گئے۔ اب اسرائیل نے ان دونوں کمانڈوز کو چھڑانے کی بہت کوششیں کی اردن میں شاہ حسین کی حکومت تھی انہوں نے سخت ایکشن لیا اور کہا کہ ان دونوں کمانڈوز کو سخت سزا دی جائے گی اسرائیل نے امریکا سے اپروچ کیا اس وقت بل کلنٹن امریکا کے صدر تھے۔ شاہ حسین بھی ڈٹ گئے انہوں نے بل کلنٹن سے کہا اسرائیل اس کی اینٹی ڈوز لائے اور خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالے بالآخر اسرائیل کو بات ماننا پڑی اس وقت بھی نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے رکن تھے۔ اسرائیل کے ڈاکٹرز آئے اور انہوں نے اینٹی ڈوز لگا کر خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالا لیکن اس کے بعد بھی اردن نے کمانڈوز کو نہیں چھوڑا اور اسرائیل کی قید میں کئی سو فلسطینیوں کو جیل سے رہائی دلوائی پھر ان کمانڈوز کو چھوڑا گیا جب کوئی حکمران ڈٹ جائے تو بڑے بڑوں کو جھکنا پڑتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • موضوع: آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دین اور اخلاق پر اثرات اور مستقبل 
  • اماراتی پولیس کا جعل سازوں سے محتاط رہنے کا انتباہ
  • بھارت کو شکست دینے کےبعد آج عرب ممالک میں پاکستان کو وہی عزت حاصل ہے جو بڑے ممالک کو دی جاتی ہے، حنیف عباسی
  • ابھیشیک سے علیحدگی؟ ایشوریا رائے والدہ کے گھر بار بار کیوں جاتی ہیں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟