WE News:
2025-09-20@08:34:21 GMT

پاک سعودی دفاعی معاہدہ اور خطے کی سیاست پر اثرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کو ماہرین نہ صرف ایک تاریخی پیشرفت قرار دے رہے ہیں بلکہ اسے موجودہ حالات میں فلسطین کی حمایت کے تناظر میں بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب سے باہمی مفادات کا خیال رکھنے کی توقع ہے، بھارت کا پاک سعودی معاہدے پر ردعمل

دونوں ممالک نے زور دیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت ہے، اور یہ معاہدہ اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔

پس منظر اور دیرینہ تعلقات

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ گہرے اور قریبی رہے ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا، خصوصاً حرمین شریفین کے تحفظ کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان غیر رسمی معاہدے عرصہ دراز سے موجود رہے ہیں۔

A historic milestone has been achieved Pakistan and Saudi Arabia have signed a Strategic Mutual Defense Agreement, granting Pakistan the sacred honor of standing as a protector of the Haramain Sharifain.

This is more than a military pact; it is a divine and spiritual… pic.twitter.com/V7SrQEfizL

— Pakistan Strategic Prism (@PakStratprism) September 19, 2025

سعودی عرب نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، خاص طور پر جب پاکستان عالمی پابندیوں اور معاشی دباؤ کا شکار تھا۔

امریکا اور مغربی دنیا کے لیے پیغام

یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون واشنگٹن کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ مسلم ممالک اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے اب مزید باہمی انحصار بڑھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی پیشرفت ہے، مشاہد حسین

تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاہدے سے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔

ایران اور افغانستان کے خدشات

ایران کے نزدیک یہ معاہدہ خطے میں اس کے اثرورسوخ کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے، جبکہ افغانستان کے حالات اور وسط ایشیائی خطے کی صورتحال بھی اس پیش رفت سے جڑی ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اس معاہدے کو اپنے خلاف صف بندی سمجھ سکتا ہے۔

بھارت اور جنوبی ایشیا پر اثرات

پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھارت کے لیے بھی نئی سفارتی اور اسٹریٹجک مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

نئی دہلی پہلے ہی خلیجی ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اسلام آباد اور ریاض کا اتحاد اس توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

ایٹمی پہلو اور اسٹریٹجک تعاون

ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی تعاون چاہ سکتا ہے۔

اگرچہ یہ معاملہ حساس ہے، لیکن اس کے اشارے پچھلی دہائیوں سے موجود ہیں کہ ریاض اسلام آباد پر اس ضمن میں بھروسہ کرتا ہے۔

مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت

یہ دفاعی معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو ایک نئی جہت دیتا ہے بلکہ مسلم دنیا کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ صرف اتحاد اور باہمی تعاون سے ممکن ہے۔

فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ موقف اور خطے میں طاقت کا نیا توازن اس پیش رفت کو مزید نمایاں بناتا ہے۔

بشکریہ: الجزیرہ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹریٹجک تعاون پاکستان دفاعی معاہدہ سعودی عرب

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹریٹجک تعاون پاکستان دفاعی معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ پاک سعودی رہے ہیں سکتا ہے دنیا کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ

پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ جس کے بعد ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا۔ اس معاہدہ پر دستخط کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ریاض گئے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی اور پھر معاہدہ پر دستخط کی تقریب ہوئی۔

پاکستان و سعودی عرب کے درمیان آٹھ دہائیوں پر محیط برادرانہ، اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدہ کو ''اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے'' (SMDA) کہا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اور مشترکہ دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔وزیر اعظم پاکستان کی سعودی عرب آمد پر انھیں سعودی جنگی جہازوں نے سلامی دی ۔جو اپنی جگہ اہم ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس باہمی دفاعی معاہدہ نے عالمی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدہ کو کسی خاص واقعہ کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عرب دنیا میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط ہو گیا تھا۔ عرب دنیا میں یہ سوچ مضبوط ہو گئی تھی کہ اسرائیل کے خلاف شاید امریکا ان کا دفاع نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے سوا انھیں فی الحال کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو اپنے دفاع کے کمزور ہونے کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا باہمی دفاع کا معاہدہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نیٹو ممالک کے درمیان بھی یہی معاہدہ ہے۔ ایک نیٹو ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ شمالی کوریا اور روس کے درمیان بھی ایسا معاہدہ ہے، اور بھی ممالک نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ ایسے مشترکہ دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یہ معاہدے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ اب دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہم سعودی عرب کا ہر قسم کی جارحیت سے دفاع کرنے کے اب پابند ہیں۔ یہ صرف اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔ اگر یمن کے حوثی بھی اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں جیسے انھوں نے ماضی میں میزائیل داغے بھی ہیں۔ تو ہم تب بھی سعودی عرب کے دفاع کے پابند ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی بھارت کے خلاف ہمارے دفاع کا پابند ہوگیا ہے۔ اگر بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو یقیناً وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔ یقیناً یہ بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تو کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاشی تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور بھارت کے درمیان کافی معاشی تعلقات موجود ہیں۔ بھارت کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ اب پاکستان سے اس کی لڑائی سعودی عرب سے بھی لڑائی تصور ہوگی۔

ایک رائے یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی میزائیل ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہم اپنے میزائیل سعودی عرب میں لگا سکتے ہیں، یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ اسرائیل کو پہلے یہ خطرہ تھا کہ ہمارے میزائل اسرائیل پہنچ سکتے ہیں۔ اس نے امریکا کو کئی بار شکایت لگائی ہے کہ ہم بڑی رینج کے میزائل بنا رہے ہیں جو بھارت کی بجائے اسے بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن اب تو ہم یہ میزائل سعودی عرب میں بھی لگا سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ خطہ کی صورتحال بھی دلچسپ ہو گئی ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے درمیان پہلے ہی دفاعی تعلقات موجود ہیں۔ اسرائیل بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی دیتا ہے لیکن بھارت اور اسرائیل کے درمیان کوئی باہمی دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہم نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا پاکستان کے خلاف استعمال دیکھا ہے۔اسرائیلی ڈرون پاکستان پر آئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کے لیے زیادہ پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ کیا دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کریں گے۔ کیا متحدہ عرب امارات بھی ایسا معاہدہ کرے گا۔ کیا قطر، بحرین اور دیگر عرب دنیا بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کرے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عرب دنیا نے مل کر پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں نہیں کیا۔ ایسا معاہدہ عرب اجلاس کے موقع پر بھی ہو سکتا تھا۔ویسے تو سعودی عرب عرب دنیا کا لیڈر ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عرب دنیا سعودی عرب کے پیچھے چلتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان دفاعی تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان ایسے معاہدے اور عرب دنیا کے ساتھ کرے گا۔ مشترکہ دفاع کا معاہدہ صرف سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوگا۔ لیکن دیگر عرب دنیا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھے گا جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب ترکیہ کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ وہ روس چین کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ نہیں ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ترکیہ نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہے جب کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا دفاعی تعاون پہلے ہی امریکا کے ساتھ موجود ہے۔ وہ امریکا اور روس کے درمیان جاری کسی تناؤ کا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ آگے چین اور امریکا کے درمیان بھی تنازعات ہوں گے۔ چین اگلی سپر طاقت ہے۔

اس لیے سعودی عرب چین اور امریکا کے درمیان کسی لڑائی کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ سعودی عرب ایک ایسے دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ معاہدے سے عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ وہ ایک غیر جانبدار دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جو پاکستان سے بہتر میسر نہیں تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان پہلے ہی سعودی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔

پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے پہلے ہی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ تعاون صرف دفاع تک محدود رہے گا۔ تعان بڑھے گا تو سب شعبوں میں بڑھے گا۔ اس لیے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خوشحالی کی نوید بھی لائے گا۔ مسلم دنیا کی سیاست بھی بدل گئی ہے۔ پاکستان کی مسلم دنیا میں پہلے ہی بہت اہمیت تھی۔ اب تو پاکستان اور سعودی عرب اکٹھے نظر آئیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، آج یوم تشکر منایا گیا
  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بڑی چیز ہے،پاکستان پر خطرات تو ہمیشہ سے رہے مگر اب مزید بڑھ گئے ہیں،اسد عمر
  • پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ، بھارت ،اسرائیل پریشان، خطے میں نئی ہلچل
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
  • پاکستان و سعودی عرب کا تاریخی معاہدہ
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز ہے، بھارتی وزارت خارجہ
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے سے بھارت اور اسرائیل میں صف ماتم بھچی ہوئی ہے: مشاہد حسین سید