Juraat:
2025-09-20@08:20:36 GMT

پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

محمد آصف

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ اسٹریٹجک ڈیفنس معاہدہ (Strategic MutualDefence Agreement) بلاشبہ خطے میں ایک تاریخی اور فیصلہ کن پیش رفت ہے ۔ اس معاہدے نے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت بخشی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی سوالات اور امکانات کو جنم دیا ہے ۔ یہ معاہدہ اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے ، ایران و اسرائیل کی کشیدگی عروج پر ہے ، اور امریکہ کی خطے میں کمزور ہوتی ہوئی ساکھ نئے اتحادی ڈھانچوں کی ضرورت کو اجاگر کر رہی ہے ۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس کے اثرات خطے اور دنیا کے کئی ممالک تک پھیل سکتے ہیں۔اس معاہدے کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا، اور دونوں مشترکہ طور پر اس کا دفاع کریں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے اپنی سلامتی کو باہم جوڑ دیا ہے ، جو ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ ہے ۔ پاکستان، جو ایک
ایٹمی طاقت ہے ، سعودی عرب کے لیے ایک مضبوط دفاعی ساتھی بن سکتا ہے ، جبکہ سعودی عرب کے مالی وسائل اور جدید ہتھیار پاکستان کے لیے فوجی اور تکنیکی سہارا فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف فوجی تعاون تک محدود ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ فوجی مشقیں، اور عسکری حکمت عملیوں پر بھی عمل درآمد ممکن ہوگا۔
علاقائی توازن پر اثرات
پاک سعودیہ معاہدے کا سب سے نمایاں اثر خطے کے تزویراتی توازن پر پڑے گا۔ ایران، جو پہلے ہی سعودی عرب کا سب سے بڑا حریف ہے ، اس معاہدے کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھ سکتا ہے ۔ اگر پاکستان کھل کر سعودی عرب کے دفاع میں شریک ہوتا ہے تو ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے ۔ دوسری جانب اسرائیل، جو حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری کارروائیوں اور تعلقات کے پھیلاؤ میں سرگرم رہا ہے ، اس معاہدے کو اپنے عزائم کے لیے رکاوٹ کے طور پر دیکھے گا۔ مزید یہ کہ بھارت، جو پاکستان کا روایتی حریف ہے اور سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا تھا، اس معاہدے پر محتاط رویہ اپنائے گا کیونکہ اس کے اثرات براہِ راست جنوبی ایشیا کی سلامتی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
نیوکلیئر پہلو اور عالمی خدشات
اگرچہ معاہدے میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کی نظر اس بات پر ہے کہ کہیں یہ معاہدہ سعودی عرب کو بالواسطہ طور پر ایک ”نیوکلیئر چھتری” تو فراہم نہیں کرتا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہمیشہ سے عالمی سیاست میں ایک اہم نکتہ رہے ہیں، اور اس معاہدے نے ان خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ امریکہ اور یورپی ممالک ممکنہ طور پر اس پہلو پر اپنی تشویش کا اظہار کریں گے ، جبکہ اسرائیل کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے ۔
پاکستان کے لیے مواقع
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ کئی مواقع پیدا کرتا ہے ۔ سب سے پہلے ، سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب پہلے ہی پاکستان میں
سرمایہ کاری کر رہا ہے ، خاص طور پر توانائی، تیل ریفائنری اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں۔ دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ اگر یہ تعلقات اقتصادی شراکت داری میں بھی مزید وسعت اختیار کرتے
ہیں تو پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ ایک ریلیف ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کو بھی مزید مواقع میسر آ سکتے ہیں، جس سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوگا۔
چیلنجز اور خطرات
اس معاہدے کے ساتھ جہاں امکانات ہیں، وہیں کئی خطرات اور چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کسی خطے کے تنازع میں براہِ راست ملوث ہو سکتا ہے ۔ اگر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے تو پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے مشکل ہوگی کیونکہ ایران کے ساتھ اس کی سرحد مشترک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، مذہبی اور تجارتی روابط بھی ہیں۔ اگر پاکستان مکمل طور پر سعودی بلاک میں شامل ہو جاتا ہے تو ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جس کے اثرات بلوچستان اور سرحدی سلامتی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایک اور چیلنج بھارت کا ردعمل ہے ۔ بھارت اس معاہدے کو اپنے خلاف سمجھ سکتا ہے ، خاص طور پر اگر سعودی عرب پاکستان کو عسکری اور اقتصادی طور پر مضبوط کرنے لگے ۔ بھارت خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتا ہے تاکہ اس معاہدے کا توڑ نکالا جا سکے ۔ اس کے نتیجے میں خطے میں اسلحے کی دوڑ اور کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے ۔
عالمی سیاست پر اثرات
یہ معاہدہ صرف پاک سعودیہ تعلقات تک محدود نہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی اثر ڈالے گا۔ امریکہ، جو طویل عرصے سے سعودی عرب کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے ، اس معاہدے کو اپنی پالیسی کے تناظر میں دیکھے گا۔ واشنگٹن کے لیے یہ سوال اہم ہوگا کہ سعودی عرب نے کیوں پاکستان جیسیایٹمی طاقت کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا۔ ممکن ہے امریکہ اس کے جواب میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرے ۔ چین کے لیے یہ معاہدہ خوش آئند ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں ہی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے حامی ہیں، اور چین اس اتحاد کو اپنے
مفادات کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔
داخلی سیاست پر اثرات
پاکستان کے اندر اس معاہدے کے اثرات مختلف ہوں گے ۔ ایک طرف یہ حکومت کے لیے عوامی مقبولیت کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔لیکن دوسری جانب اپوزیشن اور کچھ تجزیہ نگار اس پر خدشات ظاہر کر سکتے ہیں کہ کہیں پاکستان کسی ایسی جنگ یا تنازع میں نہ الجھ جائے جو اس کے اپنے قومی مفادات کے خلاف ہو۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی میں بحث ہونا ناگزیر ہے ۔
معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان کس کا؟
اس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت اور اسرائیل کو ہوا کیونکہ یہ دونوں ممالک اب پاکستان اور سعودی عرب پر حملہ نہیں کر سکتے ۔ اگر بھارت پاکستان پر حلہ کرتا ہے تو اس معاہدے کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک پر حملہ دونوں پر حلہ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان پر حملے کے بعد سعودی عرب کی حکومت یقینی طور پر سعودی عرب سے آنڈین کو فوری طور پر بھارت بھیجے گی، اور اسرائیل سعودی عرب پر حملہ نہیں کرے گا کیونکہ اب ہم سعودی عرب کو قانونی طور پر ہر طرح سے ہر ایک سے محفوظ رکھیں گے ۔ دنیا میں تقریباً 56 مسلم ممالک ہیں لیکن اس کام کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کو چنا کیونکہ ہماری افواج نے حال ہی میں بھارت کے چار رافیل طیارے مار گرائے ہیں جب ہم اکیلے ہی اپنے سے سات گنا بڑے ملک کو حیران اور پریشان کر سکتے ہیں تو اسرائیل تو پھر بھی بھارت سے 150 گنا چھوٹا ہے ۔ اگر انہوں نے قطر جیسی غلطی کی، تو ہماری فورسز انہیں زندہ چبا دیں گے !!!
نتیجہ
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ پاک سعودیہ معاہدہ ایک تاریخی قدم ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے ۔ یہ معاہدہ پاکستان کو عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا
موقع فراہم کرے گا اور سعودی عرب کو ایک مضبوط عسکری شراکت دار دے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کئی خطرات اور چیلنجز بھی لاتا ہے جنہیں دانشمندی، توازن اور محتاط حکمتِ عملی کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم رکھے اور معاہدے کو اپنی قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ جوڑے تو یہ اس کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر یہ تعلقات یکطرفہ جھکاؤ اختیار کر لیتے ہیں تو پاکستان کو خطے میں نئی دشمنیوں اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب دونوں ممالک کے پاکستان کے لیے سعودی عرب کے اس معاہدے کے اس معاہدے کو عالمی سیاست پاکستان کو پاک سعودیہ تعلقات کو کے تعلقات یہ معاہدہ معاہدے کا کے لیے یہ کے اثرات سکتے ہیں کا سب سے کے ساتھ سکتا ہے کو اپنے کر سکتے پر حملہ کہ پاک پر بھی اور اس رہا ہے

پڑھیں:

پاک سعودیہ معاہدہ: ملک بھر میں یومِ تشکر، عوامی جوش و خروش عروج پر

اسلام آباد  : پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر ملک بھر کی مساجد میں یوم تشکر منایا گیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر آج (جمعہ) کو ملک بھر کی مساجد میں یوم تشکر منایا گیا۔ شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کے بعد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستی اور اسلامی بھائی چارے کا رشتہ مزید مضبوط ہونے اور دفاعی معاہدے کی کامیابی کے لیے دعائیں کی گئیں۔یوم تشکر پر مساجد میں نماز شکرانہ ادا کی گئی۔ نماز شکرانہ کے اجتماعات میں چیئرمین رویت ہلال کمیٹی عبدالخبیر آزاد، پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی سمیت مختلف مکاتب فکر کے علما نے شرکت کی۔اس موقع پر علمائے کرام نے خطاب کرتے ہوئے پاک سعودی دفاعی معاہدے کو عظیم معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حرمین شریفین دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہے اور اس کی حفاظت کرنا شرف کی بات ہے۔چیئرمین رویت ہلال کمیٹی عبدالخبیر آزاد کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر پوری قوم فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر، خادم حرمین شریفین، ولی عہد محمد بن سلمان کو سلام پیش کرتی ہے۔ حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور یہ معاہدہ پوری امت مسلمہ کی آواز ہے۔عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ پاک سعودی معاہدے سے اسرائیل پریشان ہے۔ پوری قوم فیلڈ مارشل کے ساتھ کھڑی ہے اور ملک دشمن طاقتوں کو اب کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ آج کے بعد فوج اور ریاست پر حملہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے۔ اس معاہدے نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو زمین میں دفن کر دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔مولانا طیب قریشی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان اور پاک فواج کو حرمین شریفین کی حفاظت کیلیے چن لیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان بڑا دفاعی معاہدے طے پایا اور اس پر دستخط کیے گئے۔اس موقع پر جاری اعلامیہ میں کہا تھا کہ اس معاہدے کا مقصد کسی بھی جارحیت کیخلاف مشترکہ دفاع و تحفظ مضبوط بنانا ہے کسی ملک کیخلاف جارحیت دونوں ممالک کیخلاف جارحیت تصور ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے سے ایک روز قبل ایران کی  اہم شخصیت نے محمد بن سلمان سے ملاقات کی:صحافی کامران یوسف
  • پاک سعودیہ معاہدہ: ملک بھر میں یومِ تشکر، عوامی جوش و خروش عروج پر
  • پاک سعودیہ معاہدہ مکمل طور پر دفاعی نوعیت کا ہے، وزیردفاع
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ اہم پیشرفت، ممکنہ خطرات بھی بڑھ گئے ‘اسد عمر
  • پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ، بھارت ،اسرائیل پریشان، خطے میں نئی ہلچل
  • پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدہ: عالمی میڈیا نے پیشرفت کو خطے کیلئے اہم قرار دے دیا
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی پیشرفت ہے، مشاہد حسین
  • سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہیں.سعودی وزیر دفاع
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز ہے، بھارتی وزارت خارجہ