Express News:
2025-09-21@00:58:56 GMT

تیسری جنگِ عظیم کی طرف

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

گزشتہ دوچار مہینوں میں بین الاقوامی تعلقات میں تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے منظرنامے کا جائزہ لیں تو دوسری جنگِ عظیم کا آغاز بھی ایسے ہی ہوا تھا جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔اس سے پہلے جرمنی نے آسٹریااور چیکو سلواکیہ پر اپنا قبضہ جما لیا۔

برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا، اٹلی کے حکمراں مسولینی، جرمنی کے اتحادی تھے۔ ہٹلر اور مسولینی طاقت کے نشے میںچور تھے۔ جاپان، برطانیہ کے خلاف پیش پیش تھا۔ مسولینی نے  1936 میں جب کہ 1940 میں جاپان نے جرمنی سے اتحاد بنایا۔ 1940 کے دور میں برِصغیر میں کانگریس کی قیادت سبھاش چندر بوس جرمنی کے حمایتی تھے اور ہندوستان میں انگریز سامراج کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد کے حامی تھے۔ جاپانی افواج برما تک پہنچ گئی تھیں اور سبھاش چندر بوس کے ساتھ باغی متحرک تھے۔ انھیں دنوں میں سبھاش چندر بوس کانگریس کے صدر منتخب ہوئے بعدازاں ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ تاحال معمہ ہے۔

پہلی جنگ عظیم کی شروعات کالونیوں کی تکرار پر ہوئی تھی۔ برطانیہ کی کالونیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔کالونیوں کے شمار میں فرانس دوسرے نمبر پر اور اس کے بعد جرمنی اور بلجیم بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔ ٹھیک انھیں زمانوں میں جنگ کی وجہ سے جب یہ طاقتیں کمزور ہوئیں تو روس میں بالشویک انقلاب آیا۔ آسٹریا اور ہنگری کے شہزادوں کے ایک سربیائی قوم پرست کے ہاتھوں قتل نے بلآخر1914میں اس جنگ کو وسیع کردیا۔ اس جنگ کی وسعت میں جرمنی کے بادشاہ کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا بھی عمل دخل تھا۔
اس جنگ کے پھیلاؤ میں سلطنتِ عثمانیہ کا بھی ایک اہم کردار ہے۔

سلطنت عثمانیہ، جرمنی، ہنگری اور آسٹریا کے اتحاد میں تھی۔ اس اتحاد نے پہلی جنگِ عظیم میں شکست کھائی۔ سلطنت عثمانیہ کے اندر عرب، آرمینیا اور دیگر یونانی قوموں کے درمیان تضادات، اقرباء پروری، بے ایمانہ روایات اور بدعنوانیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کو اندر سے کمزورکر دیا۔ اسی بنیاد پر کمال اتاترک نے ترکیہ میں قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس سیکیولر ریاست کو پہلی بار طیب اردگان نے چیلنج کیا۔ اب لوکل باڈیز میں دوبارہ سیکیولرز جیت کر آئے ہیں، اب مزید کچھ سالوں میں ترکیہ کہاں ہو گا؟ یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔
1990 تک روس، سوویت یونین کی شکل میں دنیا کی عظیم طاقت تھا مگر ٹوٹ کر ریاستوں کی شکل میں بکھرگیا۔ یوکرین، ایسٹونیا، جارجیا، بیلا روس، کرغستان، لیٹویہ، مولڈووا، تاجکستان، ترکمانستان، آرمینیا، قازقستان، آذربائیجان وغیرہ۔

چین اس وقت دنیا کی سپر طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور جیسے جیسے چین مضبوط ہو رہا ہے، مغربی طاقتیں یا پھر امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ اب امریکا کی طاقت پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی جیسا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تھی۔ روس نے 2014  میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریمیا پر قبضہ کر لیا جوکہ یوکرین کا حصہ تھا۔ بین الاقوامی قوتیں روس پر پابندی نہیں لگا سکیں۔ پھر روس نے یوکرین پر حملہ کردیا اور یوکرین نے روس سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ آزاد ہوکر نہ ہی نیٹو اور نہ ہی یورپین یونین کا حصہ بنے گا۔ امریکا اور برطانیہ نے روس پر پابندیاں عائد کردیں مگر ہندوستان نے روس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس نے امریکا کے ساتھ بھی اپنے روابط جاری رکھے۔ اس منظرنامے میں روس نے اپنے تعلقات چین کے ساتھ مضبوط کیے۔ یوکرین، امریکا اور یورپین طاقتوں کے قریب رہا۔

کچھ ہی عرصے بعد حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا، ہواؤں کا رخ پلٹ گیا، اسرائیل نے غزہ کو تباہ کردیا، لبنان میں حزب اللہ کو نقصان پہنچا۔ اسی دور میں روس کا سب سے بڑا اتحادی شام، وہاں کے صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ ایران نے اسرائیل کا بھر پور جواب دیا اور جنگ رک گئی۔ اسرائیل نے ہندوستان کے ساتھ اتحاد جوڑا، اس اتحاد کا مقصد پاکستان کی ایٹمی طاقت کو ہدف بنانا تھا۔ ہندوستان کے عرب ممالک کے ساتھ بھی بہتر تعلقات تھے اور پاکستان کے تعلقات بھی عرب ممالک کے ساتھ نہایت خوشگوار ہیں۔ اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد تمام مسلمان عرب ریاستوں کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کا احساس ہوا اور اسرائیل کو اپنی اس غلطی کا شدید احساس بھی ہوا۔

حال ہی میں ہم نے سعودی عرب کے ساتھ بہت بڑا دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ تمام عرب ریاستیں بمع مصر اب اسرائیل سے نالاں ہیں۔ ہندوستان نے اچھے روابط عرب ریاستوں سے استوارکیے تھے اب کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں دنیا کی 142  ریاستوں نے آزاد فلسطین کی حمایت کی ہے۔ یورپین یونین بھی اسرائیل کی حمایت سے پیچھے ہٹتا ہوا نظرآرہا ہے،کیونکہ غزہ کے اندر جو ظلم و بر بریت اسرائیل نے ڈھائی ہے، کوئی ملک اس کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ عرب ریاستوں کا اسرائیل سے بائیکاٹ ہے۔ بس ایک ہندوستان ہی ہے جو اکیلا ہی روس کے ساتھ جنگی مشقیں کرتا نظر آ رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات پر جو ہندوستان کی دسترس تھی وہ اب نہیں رہی۔ چین کے خلاف امریکا نے آسٹریلیا اور جاپان کا اتحاد بنایا، وہ اتحاد بھی اب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔

چین بڑی تیزی سے ایک معاشی اور دفاعی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ امریکا اپنا وقار ٹرمپ کی قیادت میں کھو رہا ہے۔ انھیں زمانوں میں روس نے ایک ڈرون میزائل پولینڈ پر داغ دیا، جب کہ امریکا میں وینزویلا کے ساتھ جنگ کرنے کی مشقیں کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں چین نے  SCO  کے پلیٹ فارم پر طاقت کا مظاہرہ کیا جو اس دہائی کا سب سے بڑا ایونٹ ہے۔ اس موقع پر چین نے دنیا کے درجنوں سربراہوں کو مدعوکیا اور دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی برسی مناتے ہوئے امریکا کو یہ باورکروایا کہ اب چین کے ساتھ دنیا کے اکثریتی ممالک اتحاد میں ہیں۔ اس موقع پر شمالی کوریا کے صدر کو غیرروایتی اہمیت دی گئی جو کہ جنگی جنونیت میں اپنا ایک نام رکھتا ہے، جنھوں اپنی افواج کو روس میں یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا۔ 

حالات اس قدر خراب ہیں کہ آہستہ آہستہ جنگ کا بیانیہ اب بدل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا ایک بیان یہ آیا ہے کہ وہ بٹگرام کا ایئرپورٹ واپس اپنی تحویل میں لیں گے، وہ اس لیے کہ چین جہاں اپنا نیوکلیئر اسلحہ تیارکرتا ہے وہ اس جگہ سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے، اگر بڑی طاقتوں نے جارحیت کرتے ہوئے دوسرے ممالک پر حملے کیے تو چین بھی تائیوان کے اندر داخل ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت نیوکلیئر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
چین کی پالیسی کچھ عجیب سی رہی ہے، وہ سوویت یونین کی طرح امریکا کے خلاف کہیں بھی جنگی اڈے نہیں رکھتا اور نہ ہی چین نے غزہ میں اسرائیل کو خبردارکرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے، نہ ہی چین نے اس حوالے سے کبھی کوئی بیان دیا اور نہ ہی چین کی کبھی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ میں مداخلت کرے۔ چین کی اس پالیسی سے امریکا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے۔

ٹیکنالوجی کے حوالے سے پہلے جو ریسرچ مضامین دنیا کے جریدوں میں چھپتے تھے، ان میں زیادہ تعداد امریکا کے سائنسدانوں اور ریسرچرزکی ہوتی تھی مگر اب پچھلے دو تین سالوں میں جو سب سے اہم دس ریسرچ مقالے چھپے ہیں، ان میں سے آٹھ چین سے ہیں اور ایک امریکا سے۔ چین کا تیزی سے ابھرنا یورپ کو پریشان نہیں کر رہا ہے مگر اس عمل سے امریکا کی تشویش دکھائی دے رہی ہے۔

یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے، پاکستان نے بڑے عرصے کے بعد ایک مقام اقوامِ عالم میں حاصل کیا ہے۔ افغان پالیسی کا خاتمہ کرنے کے بعد ایک ذمے دار ملک کی حیثیت میں ابھر رہا ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈا جاری رکھا ہوا تھا جس میں ان کو شکست ہو چکی ہے، آنیوالے انتخابات مودی کے لیے جیتنا مشکل ہوگا۔

ہم مشرقِ وسطیٰ کی اس تکرار میں تمام عرب ممالک کے ساتھ کھڑے تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی جنگ میں مداخلت کرنا، ہمارے لیے بہتر ثابت نہیں ہوگا، بلکہ اس کا فائدہ ہندوستان اٹھا لے گا اور کوئی ملک ہماری امداد اس طرح سے نہیں کر سکے گا جس طرح ہم ان کی اسرائیل کے معاملے میں کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے بہتر حل یہ ہے کہ ثالثی کے ذریعے ایسے تضادات کو واپس سال 2022  کی پوزیشن پر لایا جائے اور دنیا کو تیسری جنگِ عظیم کی طرف جانے سے بچایا جائے۔ 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی اسرائیل نے جرمنی کے پر حملہ کے ساتھ عظیم کی کے خلاف کے بعد رہی ہے چین نے اور اس کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ چین کے ساتھ ٹک ٹاک کے حوالے سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکی سرمایہ کار ایپ کی آپریشنز کا کنٹرول امریکہ کے اندر سنبھالیں گے۔

امریکی قانون ساز کئی برسوں سے ٹک ٹاک کو لے کر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ڈیٹا پرائیویسی اور نوجوان امریکیوں پر چین کے ممکنہ اثرات ہیں۔ اسی وجہ سے بائیٹ ڈانس، جو ٹک ٹاک کی اصل کمپنی ہے، پر یا تو امریکی سرمایہ کاروں کو شئیرز دینے یا پھر امریکا میں پابندی کا سامنا کرنے کا دباؤ تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو: ٹک ٹاک اور تجارتی معاہدے زیر بحث

میڈیا رپورٹس کے مطابق اوریکل (Oracle)، سلور لیک (Silver Lake) اور آندریسن ہورووٹز (Andreessen Horowitz) نے ایک کنسورشیم پیش کیا ہے جو ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز میں 80 فیصد حصہ لے گا۔

اوریکل صارفین کا ڈیٹا امریکا میں کئی برسوں سے سنبھالتی رہی ہے جب کہ سلور لیک اور آندریسن ہورووٹز بطور سرمایہ کار شامل ہوں گے۔

تاہم بعض ناقدین نے ان نئے سرمایہ کاروں پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اسرائیل سے روابط ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آندریسن ہورووٹز اسرائیل میں سائبر سکیورٹی اور مصنوعی ذہانت کی کئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر چکی ہے جبکہ سلور لیک کے بھی اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات اور سرمایہ کاری موجود ہے۔

غزہ میں جاری جارحیت کی وجہ سے اسرائیل اور تجارتی شعبے میں اس کا ساتھ دینے والی کمپنیوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ کئی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا تجارت ٹک ٹاک چین

متعلقہ مضامین

  • سعودیہ ماضی کے اختلافات پس پشت ڈال کر ہمارے ساتھ نئے باب کا آغاز کرے‘ حزب اللہ
  • اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
  • امریکا اسرائیل کو 6 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرے گا
  • غزہ میں نسل کشی کے باوجود امریکا اسرائیل کو 6.4 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کو تیار
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • امن اور انسانیت دشمن امریکا!
  • پاک، سعودی مشترکہ دفاع، ذمے داری بڑھ گئی ہے
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بھارت کیلئے سرپرائز تھا: مشاہد حسین