امریکی ورک ویزا کی فیس میں ریکارڈ اضافہ، خواہشمندوں کی پریشانیاں بڑھ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں کام کے خواہشمند غیر ملکی افراد کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ورک ویزا، خصوصاً ایچ ون بی ویزا، کی فیس میں ریکارڈ اضافہ کر دیا ہے۔
اب اس ویزا کے لیے درخواست دینے والے امیدوار اور انہیں اسپانسر کرنے والی کمپنیاں ایک لاکھ ڈالر کی بھاری رقم ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔ یہ فیصلہ امریکی انتظامیہ کی نئی امیگریشن پالیسی کا حصہ بتایا جا رہا ہے جس کا مقصد غیر ملکی ملازمین کی آمد کو محدود کرنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس پالیسی پر باقاعدہ دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد نہ صرف امیدوار بلکہ بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی شدید دباؤ میں آ گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں کچھ کمپنیوں پر اس سے زیادہ مالی بوجھ بھی ڈالا جا سکتا ہے تاکہ امریکی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع محفوظ رہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ اثر ان کمپنیوں پر پڑے گا جو بھارت اور چین سے بڑی تعداد میں ماہرین کو امریکا لا کر بھرتی کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں عالمی سطح پر اپنی بھرتیوں کے نظام کو جاری رکھنے میں شدید مشکلات سے دوچار ہوں گی، کیونکہ خطیر رقم کی ادائیگی کے بعد بیرونی ہنر مند افراد کو ملازمت دینا ممکنہ طور پر غیر منافع بخش ہو جائے گا۔
اس فیصلے سے پہلے ایچ ون بی ویزا کے لیے فیس کا آغاز صرف 215 ڈالر سے ہوتا تھا اور مختلف مراحل میں یہ چند ہزار ڈالر تک پہنچتی تھی، لیکن اب اچانک ایک لاکھ ڈالر کی مقررہ فیس نے اس نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف امیدوار بلکہ وہ کمپنیاں بھی مالی مشکلات کا شکار ہوں گی جو ان ماہرین پر انحصار کرتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکا آنے کا خواب دیکھنے والے ہزاروں ہنر مند افراد کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو اپنی تعلیم مکمل کر کے بہتر مستقبل کی امید میں امریکی ملازمت حاصل کرنا چاہتے تھے، اب ان کے لیے یہ راستہ بند ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری جانب ٹیکنالوجی انڈسٹری کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس فیصلے سے امریکا کی اپنی صنعت کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر مہارت رکھنے والے افراد کی دستیابی مشکل ہو جائے گی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فیس میں اس قدر اضافہ امریکی مارکیٹ کی مسابقت کو متاثر کر سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا ہمیشہ غیر ملکی ماہرین پر انحصار کرتا آیا ہے، لیکن نئی پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف دیگر ممالک کو فائدہ پہنچے گا بلکہ امریکا کا ہنر مند افرادی قوت پر اعتماد بھی کمزور ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ قدم وقتی طور پر امریکی شہریوں کے حق میں دکھائی دیتا ہے، لیکن طویل المدتی تناظر میں یہ امریکا کی ٹیکنالوجی انڈسٹری اور عالمی معیشت میں اس کی برتری کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس فیصلے نے جہاں کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں وہیں ہزاروں خواہشمند افراد کے خواب بھی ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غیر ملکی سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ نے امریکی بزنس ویزے کی فیس بڑھا دی، بھارتی کمپنیوں کے اسٹاک گر گئے
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا میں بزنس ویزے کا حصول مزید مشکل ہو گیا ہے، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایچ ون بی ویزے کی فیس بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایچ ون بی ویزے کی فیس ایک لاکھ امریکی ڈالرز کی جائے گی۔ یہ رقم تقریباً پاکستانی تین کروڑ روپے بنتی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی “رائٹرز“ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک بڑے اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ایچ-ون بی (H-1B) ورک ویزا حاصل کرنے کے لیے کمپنیوں کو سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس ادا کرنا ہوگی۔
اس فیصلے سے امریکا کی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے جو بھارت اور چین سے آنے والے ہنر مند افراد پر انحصار کرتی ہے۔
ٹرمپ نے جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے امیگریشن پر سخت پالیسیوں کا آغاز کیا تھا، اور اب ایچ-ون بی ویزا پروگرام میں یہ تبدیلی ان کی سب سے نمایاں کوشش قرار دی جا رہی ہے۔
امریکی کامرس سیکرٹری ہاورڈ لُٹ نِک نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’اگر آپ کسی کو ٹرین کرنے جا رہے ہیں تو اپنے ہی گریجویٹس کو ٹرین کریں۔ امریکیوں کو تربیت دیں۔ بیرون ملک سے لوگ لا کر ہماری نوکریاں چھیننا بند کریں۔‘
ٹیک انڈسٹری میں یہ فیصلہ ایک بڑے تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایچ-ون بی پروگرام کمپنیوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ امریکی ورکرز کی جگہ غیر ملکی ملازمین کم تنخواہ پر رکھیں۔
دوسری جانب حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ پروگرام ہائی اسکلڈ ورکرز کو امریکا لاتا ہے، جو ٹیلنٹ گیپ کو پورا کرنے اور کمپنیوں کو عالمی سطح پر مسابقتی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک، جو خود بھی ایچ-ون بی ویزا ہولڈر رہ چکے ہیں، انہوں نے اس پروگرام کی حمایت کی ہے۔
ٹرمپ نے جمعے کو ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے، جس کے مطابق بعض کمپنیوں نے اس پروگرام کا غلط استعمال کرتے ہوئے امریکی ورکرز کو نقصان پہنچایا۔ حکم نامے میں بتایا گیا کہ سنہ 2000 سے 2019 کے درمیان امریکا میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ کے شعبوں میں غیر ملکی ورکرز کی تعداد دگنی ہو کر 25 لاکھ تک پہنچ گئی، حالانکہ اسی دوران امریکی STEM ملازمتوں میں صرف 44.5 فیصد اضافہ ہوا۔
رائٹرز کے مطابق، کاروباری ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک لاکھ ڈالر سالانہ فیس کی شرط دنیا کے بہترین دماغوں کو امریکا آنے سے روک سکتی ہے۔
وینچر کیپیٹل فرمز نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امریکا کی جدت اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چھوٹی ٹیک کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس پر اس کا سب سے زیادہ بوجھ پڑے گا۔
کچھ ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ پالیسی کمپنیوں کو ہائی ویلیو کام بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، جس سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین کے مقابلے میں امریکا کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ایچ-ون بی ویزا سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت نے اٹھایا، جس کے حصے میں 71 فیصد منظور شدہ درخواستیں آئیں، جبکہ چین دوسرے نمبر پر 11.7 فیصد کے ساتھ رہا۔
صرف 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں ایمیزون اور اس کی کلاؤڈ کمپنی اے ڈبلیو ایس (AWS) کو 12 ہزار سے زائد ویزا ملے جبکہ مائیکروسافٹ اور میٹا کو 5،5 ہزار سے زیادہ ویزا کی منظوری ملی۔
کامرس سیکرٹری لُٹ نِک نے کہا کہ ’تمام بڑی کمپنیاں اس فیصلے پر متفق ہیں، ہم نے ان سے بات کر لی ہے۔‘
تاہم کئی بڑی ٹیک، بینکنگ اور کنسلٹنسی کمپنیوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ بھارتی سفارتخانے اور چینی قونصلیٹ نے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
فیصلے کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھارتی آئی ٹی کمپنیوں کے حصص گر گئے۔ کوگنزنٹ کی اسٹاک ویلیو 5 فیصد تک نیچے آگئی، جبکہ انفوسس اور وپرو کے شیئرز میں 2 سے 5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
امیگریشن پالیسی کے ماہرین نے نئے فیس اسٹرکچر کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ امریکن امیگریشن کونسل کے پالیسی ڈائریکٹر ایرون ریچلن-ملنک نے کہا کہ کانگریس نے صرف اتنی فیس کی اجازت دی ہے جو درخواست کے پراسیس کے اخراجات پورے کرے، اس سے زیادہ نہیں۔
فی الحال ایچ-ون بی ویزا پروگرام کے تحت ہر سال 65 ہزار ویزے دیے جاتے ہیں، جبکہ ایڈوانس ڈگری رکھنے والے ورکرز کے لیے اضافی 20 ہزار ویزے مختص ہیں۔ یہ ویزا تین سے چھ سال کے لیے جاری ہوتا ہے۔
اسی روز ٹرمپ نے ایک اور صدارتی حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے “گولڈ کارڈ“ اسکیم کا بھی اعلان کیا ہے جس کے تحت جو لوگ 10 لاکھ ڈالر ادا کرنے کے متحمل ہیں وہ امریکی شہریت حاصل کر سکیں گے۔
Post Views: 1