نئی سائنسی تحقیق نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تشویشناک انکشافات کیے ہیں۔ جنوبی کوریا کی پوسٹیک (پوہانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کے پروفیسر جونگہُن کام کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق پاکستان آئندہ برسوں میں وقتاً فوقتاً ’سپر فلڈز‘ اور ’شدید خشک سالی‘ کا سامنا کرے گا۔

یہ تحقیق معروف جریدے ’انوائرنمنٹل ریسرچ لیٹرز‘ میں شائع ہوئی ہے اور اس تحقیق کو POSTECH کے ڈویژن آف انوائرمنٹل سائنس اینڈ انجینئرنگ کے پروفیسر جونگہُن کام اور پی ایچ ڈی طالب علم حسن رضا نے، چین کی سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر داگانگ وانگ کی ٹیم کے اشتراک سے مکمل کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ سنگین پیش گوئیاں تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں، جو دنیا بھر میں غیر معمولی موسمی واقعات کو جنم دے رہی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جو گلیشیئرز کے پگھلنے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے پاکستان کو اس لیے فوکس کیا کیونکہ اس کے بڑے دریا، خصوصاً دریائے سندھ، ملک کی بقا کے ضامن ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں نے آبی وسائل کے مؤثر انتظام کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ بطور ’گلوبل ساؤتھ‘ ملک، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے شدید متاثر ہے اور تحقیق کے لیے مطلوبہ معاشی و تکنیکی ڈھانچے سے محروم ہے۔

پروفیسر کام اور ان کی ٹیم نے روایتی ماڈلز کی خامیوں پر قابو پانے کے لیے مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کا سہارا لیا۔ عمومی ماڈلز پہاڑی علاقوں اور تنگ وادیوں میں موسمی تغیرات کو درستگی سے پیش گوئی نہیں کر پاتے اور بارش کے اندازے کو یا تو بڑھا دیتے ہیں یا کم کر دیتے ہیں۔

ماہرین نے دریا کے بہاؤ کے سابقہ اعداد و شمار اور زمینی مشاہدات کو اے آئی کے ذریعے تربیت دی، جس سے ماضی کے انتہائی موسمی واقعات کی درست پیش گوئی ممکن ہوئی۔ اس طریقہ کار سے حاصل ہونے والا ڈیٹا روایتی ماڈلز کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابلِ اعتماد ثابت ہوا۔

مستقبل کی پیش گوئیاں
تجزیے سے ظاہر ہوا کہ بالائی دریائے سندھ ہر 15 سال کے قریب شدید سیلاب اور خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے، جبکہ دیگر قریبی دریا تقریباً ہر 11 سال بعد اسی طرح کے شدید حالات کا سامنا کریں گے۔

یہ نتائج حکومتِ پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ ملک میں ہر دریا کے لیے الگ اور مخصوص آبی انتظامی حکمتِ عملی اپنائی جائے، نہ کہ تمام دریاؤں کے لیے یکساں منصوبہ بندی پر انحصار کیا جائے۔

پروفیسر جونگہُن کام (Jonghun Kam) کا کہنا ہے کہ یہ نئی اے آئی ٹیکنالوجی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر موسمیاتی طور پر کمزور اور ڈیٹا سے محروم خطوں کے لیے بھی قابلِ اعتماد موسمیاتی معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے لیے اے آئی

پڑھیں:

قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔

یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔

تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو  قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔

فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ  قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔

جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔

اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔

تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ  کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔

پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب سے یمن جانے والی مسافر بس کو ہولناک حادثہ؛ 30 افراد زندہ جل گئے
  • چیٹ GPT ودیگر اے آئی پلیٹ فارمز سے متعلق پریشان کن انکشاف!
  • چیٹ جی پی ٹی جیسے تمام اے آئی پلیٹ فارمز سے متعلق پریشان کن انکشاف!
  • اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اسرائیلی صدر کا اعتراف
  • بلاول بھٹو کی ٹوئٹ سے سامنے آنے والی باتیں انتہائی خوفناک ہیں، سلمان اکرم راجا
  • ہمارا 70 فیصد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے: مصدق ملک
  • پی آئی اے ایئرکرافٹ انجینئرزکا احتجاج، قومی ایئر لائن کا بین الاقوامی آپریشن شدید متاثر
  • پاکستان اور ترکیہ کے وزراء کی ملاقات دوطرفہ تجارت کے فروغ پر اتفاق
  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج