زباں فہمی262 ؛ کچھ ’نکاتِ سخن ‘ کے بارے میں، (حصہ دوم)
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
حسرت ؔموہانی کو جدید نسل، زیادہ سے زیادہ ایک شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے، اُن کی تحقیق وتدوین اور تنقید کے علاوہ، تحریکِ آزادی میں اُن کے کردار پر بھی بہت دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ (مطالعہ پاکستان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات علامہ اقبال نے خواب دیکھا، چودھری رحمت علی نے نام رکھا اور قائداعظم نے پاکستان بنادیا)۔ یہ انتہائی دُکھ کی بات ہے کہ اس بابت تحقیق اور رَدِّتحقیق [Counter research] ہوتی رہتی ہے مگر ہمارے یہاں لوگ اپنے مطلب اور مزے مزے کی چیزیں دیکھنے، پڑھنے اور اُن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمہ وقت فارغ نظر آتے ہیں، جب کہ کوئی کارآمد چیز ہوتو کہتے ہیں، اتنا لمبا چوڑا بیان، کتاب یا کلپ کون دیکھے؟ خیر یہ تو جملہ معترضہ والی بات تھی جس کا مقصد خوابیدہ اذہان کو بیدار کرنے کے سواء کچھ نہ تھا۔ اب ہمیں سلسلہ وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں بات ادھوری چھوڑی تھی۔
نِکاتِ سخن: باب ’متروکاتِ سخن‘
(حسرتؔ موہانی نے متروکات کی پانچ فصلیں قائم کی ہیں یعنی متروکاتِ قدیم، متروکاتِ معروف، متروکاتِ جائز، متروکاتِ بیجا اور قابل ِ ترک)
حرف ’ک‘
ا)۔ ’کر‘ بجائے کرکے ، مثلاً ولیؔ گجراتی دکنی:
ہوجا ہے گر کہے کہ چمن میں نگاہ کر
نرگس کو چشم کا بیمار کر رکھوں
نگاہ کر، بجائے نگاہ کرکے
ب)۔ ’کرئیے‘ بجائے کیجئے اور علیٰ ہٰذاالقیاس ’کرا‘ بجائے کیا۔ نواحِ علی گڑھ وغیرہ میں جُہلاء کی زبان پر اَب تک جاری ہے، مثلاً میرؔ:
حرم کو جائیے یا دیر میں بسر کرئیے
تِری تلاش میں ایک دِل کدھر کدھر کرئیے
راقم سہیل ؔ اپنے ناواقف قارئین کی اطلاع کے لیے عرض کرتا ہے کہ ’کرئیے‘ ہمارے آج بھی بول چال کی زبان میں مستعمل ہے ، البتہ اس کا استعمال، معیاری ادبی زبان خصوصاً شعری زبان میں ہرگز مناسب نہیں سمجھا جاتا۔
ج)۔ ’کس اَگے‘ بجائے کس کے آگے ، مثلاً ولیؔ گجراتی دکنی:
اے ولی ؔ کس اَگے کروں فریاد
ظلم کرتے ہیں اُن بُتوں کے نین
یہاں خاکسار دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہے:
1)۔ حسرتؔ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور وہ ولیؔ جیسے قدیم شاعر سے بھی بھرپور استفادہ کرتے تھے، اسی لیے جابجا اُس کے کلام سے خوشہ چینی نظر آتی ہے۔
2)۔ اب موجودہ اردو میں ’کسی کے آگے‘ کی بجائے ’کسی کے سامنے‘ یا کسی کے رُوبَرُو زیادہ مستعمل ہے۔
د)۔ ’کنے‘ بمعنٰی پاس ، مثلاً میرؔ:
چھُپالیتا ہے مجھ سے چاند سا مُنھ، خُدا جانے
سُخن ساز اُس کنے جاجاکے کیا اظہار کرتے ہیں
ہ)۔ ’کُئی ‘ بجائے کوئی ، مثلاً ولیؔ گجراتی دکنی:
میں اُس کو جوں نگیں کرتا ہوں سجدہ
جو کُئی آتا ہے تیرا نام لے کر
ہوسؔ (میرزا محمد تقی ، فیض آبادی ثُم لکھنوی: س ا ص)کا شعر بھی دیکھیے:
خُدا کے واسطے صاحب! ذرا تُم بام پر آؤ
سرِ رہ کُئی کھڑا ہے دید کے امیدواروں میں
حرف ’ گ‘
ا)۔ ’گی‘ بجائے گئی، مثلاً
تُجھ مُکھ کی پرستش میں گی عُمر مِری ساری
اے بُت کے پُجن ہاری ٹُک آس پجاتی جا
یہاں حسرتؔ سے سہو ہوا، انھوں نے شاعر کا نام ولیؔ درج نہیں کیا۔ یہ شعر انٹرنیٹ پر کئی جگہ (پوری غزل میں شامل یا جُدا) نقل کرتے ہوئے جدید دور کے ’ماہرین‘ نے شاعر کی ’اصلاح ‘ فرماتے ہوئے ’ گی‘ کو گئی کردیا اور بُت کے پُجن ہاری (یعنی پُجاری) کو ’بُت کی‘ (یعنی مؤنث) کردیا اور پھر آخری ترمیم تو بہت ہی عجب کی;آس پُجاتی جا کو ’اس پجاتی جا‘ لکھ دیا۔آس پُجانا سے مُراد ہے ’مُراد پوری کرنا‘۔
ب) ’گوئیا‘ بجائے گویا، مثلاً حسرت ؔ موہانی:
مُنعِموں کی ہم غریبوں پر نظر پڑتی ہے یُوں
گوئیا سر رشتہ ٔ تقدیر، دستِ زر میں ہے
اس طرح کے اشعار میں حسرتؔ کا رنگِ قدیم نظر آتا ہے جو بہرحال اُن کی شناخت سے مختلف ہے۔ حسرتؔ کے یہاں جدّت طرازی شروع ہوئی تو جدید غزل نے گویا انگڑائی لی، ورنہ بہت کچھ پرانے رنگ ہی میں کہا جارہا تھا۔
حرف ’ل‘
ا)۔ لاگا بجائے لگا ، مثلاً اِنشا:ؔ
تڑاقے کا جو پہنا اُس پری نے تاش کا جوڑا
تو اُڑ لاگا فلک پر طائرِشاباش کا جوڑا
یہاں استعمال ہونے والے کئی الفاظ آج کے قاری کے لیے نامانوس ہیں:
تڑاقا ۔یا۔تڑاکا سے مراد کسی بھی چیز کی زور سے ٹوٹنے کی آواز، بوسے کی آواز، بجلی کا کڑاکا، طوفان کی گڑگڑاہٹ، چٹاخا، حقّے کی آواز وغیرہ۔
تاش سے مراد ہے ریشمی، زری کا کپڑا، زربفت۔
طائرِ شاباش سے مراد وہ پرندے ہیں جنھیں کسی زمانے میں بادشاہِ وقت کی شہر میں آمد یا شادی کی تقریب یا کسی اور خوشی کے موقع پر، جمع ہونے والے افراد کے سروں پر سِکّے یا جواہر اُچھال پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ;ظاہر ہے کہ وہ پرندے اس کام کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہوں گے۔ یہ روایت خوشی، خوش قسمتی اور برکت کے حصول کے لیے رائج تھی۔
اس قسم کے اشعار کی تشریح آج کل کے معلّمِ اردو کے لیے اچھا خاصہ امتحان ہے۔ اب یہاں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے محبوب کی خوش پوشاکی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُ س کے دل آویزریشمی لباس نے یوں زوردار جھماکا کیا کہ گویا آسمان پر طائرِشاباش کا کوئی جوڑا، خوشی کے مارے اُڑتا ہوا محسوس ہوا۔ اُس پری چہرہ کا محض خوش لباس ہوکر منظر عام پرآنا ہی اس قدر خوشی کا باعث ہوا، باقی تفصیل اضافی ہے۔ (یہ ترکیب اردو کی تمام متداول لغات بشمول فرہنگِ آصفیہ، نوراللغات، لغاتِ کِشوری و علمی لغات میں شامل نہیں۔ راقم نے اثنائے تحریر چند ماہرینِ لسان کو زحمت دی تو صاحبِ علم بزرگ معاصر اور فاضل رُکنِ بزمِ زباں فہمی، جناب احمد حاطب صدیقی نے مستند فارسی (آنلائن دستیاب) لغات سے اقتباس نقل کرکے تفہیم آسان کردی;پھر خاکسارنے مزید کھنگالا تو یہ مفہوم برآمد ہوا۔ اس موقع پر اگر ہماری ’فاضلِ فارسی ‘ رکن ڈاکٹر عظمیٰ زرّیں نازیہ صاحبہ بہت زیادہ مصروف نہ ہوتیں اور مجھے مضمون مکمل کرنے کی جلدی نہ ہوتی،تو اُنھیں زحمت دیتا)۔
ب)۔ لکھا ہوں بجائے ’میں نے لکھا ہے‘۔ بقول ِ حسرتؔ ’’حیدرآباد، دکن میں یہ طرزِبیاں اس وقت عموماً عروج پر ہے‘‘، (یعنی سَو سال پہلے بھی) مثلاً ولیؔ :
تصویر تِری جان مُصفّا پہ لکھا ہوں
یہ نقشِ پری دیدہ ٔ بینا پہ لکھا ہوں
میرے خیال میں یہ ’لکھا ہوں‘ اور مماثل فقرے یا جملے تو بِہار میں بھی رائج ہیں اور ہمیں آج بھی کہیں نہ کہیں سُننے کو ملتے ہیں۔
ج)۔ لوہو بجائے لہو، مثلاً میرؔ:
لوہو میں ڈوبے دیکھیو، دامان وجیب میرؔ
بِپھرا ہے آج دیدۂ خوں بار کی طرح
ویسے حیرت ہے کہ یہاں (ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل) میرؔ کی غزل کا یہ مشہور مطلع، حسرتؔ موہانی کو یاد نہ آیا:
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا
میرؔ صاحب کے یہاں یہ لفظ اور بھی جگہ استعمال ہوا ہے، جیسے:
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
ہوں دِوانہ تِرے سگِ کُو کا
اور پھر یہ شعر بھی:
ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب
چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھاؤ ہے
میر تقی میر ؔ کے دیوان پنجم میں شامل غزل کا مطلع ہے:
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا
حسرتؔ نے اسی لفظ کے استعمال کی مزید مثالیں مصحفیؔ اور تنہاؔ(شاگرد ِمصحفیؔ) کے یہاں تلاش کی تھیں۔ اگر میں غلطی نہیں کررہا تو ’لوہو‘ غالبؔ کے دور تک مستعمل تھا۔
حرف’م‘
ا)۔ یہاں حسرتؔ نے ’مارنے قابل‘ بجائے مارنے کے قابل، مجھ پاس بجائے میرے پاس اور مجھ نام بجائے میرا نام جیسی تراکیب کا ذکر کرنے کے بعد، قدرے نامانوس ترکیب کی مثال دی ہے: ’’کس مرتبے میں‘‘ بجائے کس قدر۔ انھوں نے اس کی مثال میرؔ کے کلام سے پیش کی:
گُل پیرہن نہ چاک کریں کیونکہ رشک ہے
کس مرتبے میں شوخ ہے اُس کی قبا کا رنگ
ب)۔ مُکھڑا بجائے مُنھ، حسرت ؔ کے الفاظ میں محبت اور پیار کے لہجے میں کبھی کبھی یہ لفظ اب بھی سُننے میں آتا ہے ‘‘۔ راقم کے دور میں بھی، پورے سو سال بعد، اس کا استعمال سرے سے ترک نہیں ہوا۔ یہاں اُنھوں نے پھر ولیؔ گجراتی دکنی کے کلام سے یہ نمونہ پیش کیا ہے:
عالمِ نُور ہے کیا جلوہ گری کا عالم
کہ بھبھوکا سا وہ مکھڑا ہے پری کا عالَم
ج)۔ ’میاں‘ بجائے معشوق ، مثلاً شاہ حاتمؔ:
جس کو جا ہو بھلا اُس کو بُرا کیا کہیے
گو کہ بد وضع ہے پر اَب تو میاں ہے میرا
اور یہ بھی اُنہی کا شعر ہے:
ہمارے حق میں تو اِک فتنہ وبلا تُو ہے
زہے نصیب میاں جس کا آشنا تُو ہے
اس کے بعد حسرتؔ نے میرسوزؔ، مصحفی ؔ اور تنہاؔ کے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔
حرف ’ن‘
ا)۔ نپٹ بمعنیٰ سخت کثرت، مثلاً میرؔ:
بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق
کیا جاکے دو چار اُس سے ہو ، نا چار ہے عاشق
ب)۔ ’نرباہ‘ بجائے نباہ، مثلاً میر سوزؔ:
سوزِ دل دینے کی تو پوچھے اگر مجھ سے صلاح
ہے محبت کا مزہ میٹھا ہو، نے نرباہ تلخ
ج)۔ ’نیں ‘ بجائے نہیں، مثلاً سودا:
جوش میں میرے جنوں کے کیا خوش آتی ہے بہار
پیرہن میں گُل کے نیں، پھُولی سماتی ہے بہار
حرف ’ و‘
ا)۔ ’’وے بجائے وہ ، جمع کی حالت ، وہ کی جگہ وے بولنا قُدَماء کا عام دستور ہے‘‘ یہ بیان کرکے حسرتؔ نے آبروؔ کا شعر لکھا:
پھرتے تھے دشت دشت، دِوانے کدھر گئے
وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے
یہاں وہ دردؔ کا مشہورِزمانہ شعر فراموش کرگئے:
وے زور وَر جواں جنھیں کہیے پہاڑ تھے
جب آئی موجِ حادثہ، تنکے سے بہہ گئے
ہرچند کہ یہ لفظ متروک ہوچکا ہے، مگر تعلیمی نصاب کے توسط سے اس کا تعارف اردو کے طلبہ کو حاصل ہوجاتا ہے۔
ب)۔ وگرنہ بجائے ورنہ۔ یہ بہت مشہور رہا ہے۔ اس بابت حسرتؔ موہانی نے فرمایا کہ ’’فارسی میں اگر کی بجائے مگر اور اُس کے مقالب میں وگر اور ورنہ بھی لکھتے ہیں، اردو میں متروکہ ہے‘‘۔ پہلے حسرتؔ کی پیش کردہ مثالیں پیش کرتا ہوں، پھر اُن کے دوسرے نکتے پر بات ہوگی:
گر حصول مدّعا ہو ورنہ ہو ہم شاد ہیں
وقف برق پاس ہے خرمن یہاں امید کا
(عیشیؔ)
یہاں ’ورنہ‘ بجائے ’وگرنہ استعمال ہوا ہے۔
کچھ اَب کی ہم سے وہ آزُردہ بیٹھ رہے
وگرنہ ایسی لڑائی تو لاکھ بار ہوئی
(عرشؔ لکھنوی)
بقول حسرت ’’عیشیؔ نے وگرنہ کی بجائے ورنہ استعمال کیا تھا اور عرشؔ نے ورنہ کی جگہ وگرنہ کہا ہے۔ یہاں موقع وگرنہ کی بجائے ’نہیں تو‘ کے استعمال کا تھا۔ عرشؔ نے بظاہر ’تو‘ کی تکرار کو بچایا ہے‘‘۔ ایسی گہری نظر حسرتؔ موہانی جیسے نقادِ فن ہی کی ہوسکتی ہے۔
فارسی ہی میں شیخ سعدی رحمۃ اللّہ علیہ کا شعر بطور مثال پیش کیا جاتا ہے:
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
’’اور ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے‘‘۔ ترجمہ: محمد وارث
راقم نے اپنی بساط بھر کوشش سے حسرتؔ موہانی کے ایک معاصر اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے شاگرد، آزاد انصاری (1871 تا 1942) کا یہ شعر ڈھونڈ نکالا ہے جس میں وگرنہ کا استعمال بخوبی کیا گیا ہے:
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
اردو میں فارسی کا بہت مشہور مقولہ بطور محاورہ مستعمل ہے: گویَم مُشْکِل وَگَرنَہ گویَم مُشْکِل۔ اس کا محلّ استعمال یہ ہے کہ جب کوئی بات کہنا ناگزیر ہو مگر بندہ کہہ نہ پائے اور پھر نہ کہنے کی صورت میں کسی قسم کا خطرہ یا خدشہ بھی موجود ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ (ریختہ آنلائن لغت والوں نے اس کا مفہوم سمجھے بغیر کچھ کا کچھ لکھ دیا)۔ یہ تو ہماری شاعری میں ایک سے زائد جگہ کہا جا چکا ہے، مثلاً: آزاد انصاری ہی کا مشہور شعر ہے:
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
فلمی شاعری بھی کہیں کہیں لائق ِ نقل ہوتی ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
اظہار بھی مشکل ہے، چُپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اُف اَللّہ! کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
راقم کا خیال ہے کہ حسرت ؔ نے سو برس پہلے ’وگرنہ‘ کا استعمال کم ہوتے دیکھ کر یہ خیال کیا ہوگا کہ اسے متروک ہی قرار دینا بہتر ہے، ورنہ ہم نے تو اَپنے دور میں بھی اس کا محدود ۔یا ۔شاذ استعمال ہوتے دیکھا ہے، سو یہ متروک نہیں!
ہمارے ایک بزرگ معاصر جناب محسن اسرار کی غزل کا شعر ہے:
دلاسا دے وگرنہ، آنکھ کو گریہ پکڑ لے گا
ترے جاتے ہی پھر مجھ کو غم دنیا پکڑ لے گا
اور دُور کیوں جائیں، خاکسار کی ایک پُرانی غزل کا یہ شعر بھی پیش نظر رہے:
بس ایک گا م پہ تجھ کو ٹھہر کے دیکھا تھا
وگرنہ مثلِ صبا ہم سفر میں رہتے ہیں
(سہیل احمدصدیقی)
حرف’ہ‘
ا)۔ ہم سار یعنی ہمارے مانند، ہمسے (یہ لفظ حسرتؔ نے استعمال کیا ہے)، ہمارے اور ہم سری کے اہل۔ حسرت ؔ کے دنوں میں حیدرآباد، دکن میں عام مستعمل تھا، نیز شمالی ہند میں، مثلاً مصحفیؔ:
یارانِ عدم رفتہ گئے دُور بہت سے
ہمسار کے پیچھے رہے رنجور بہت سے
ب)۔ ’ہمن کی‘ بجائے ہماری، مثلاً قائمؔ چاند پوری:
کاغذ ہری زمین کا نہیں دیکھتا کہ شاید
پہنچے نہ اس ہنر سے اُس کو ہمن کی پاتی
پاتی کا مطلب ہے ’خط‘ (Letter)
(جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گجراتی دکنی کا استعمال استعمال کی لکھا ہوں کی بجائے ا تا ہے غزل کا کے لیے کا شعر یہ شعر یہ لفظ
پڑھیں:
وزارتوں، ڈویژنز کا 265 ارب سے زائد کے فنڈز استعمال نہ کرنے کا انکشاف
—فائل فوٹووفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کی جانب سے 265 ارب 45 کروڑ روپے سے زائد کے رقم بر وقت حکومت کو واپس نہ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز نے 265 ارب 45 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز استعمال نہیں کے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023ء کے لیے پارلیمان نے وزارتوں اور ڈویژنز کے لیے بجٹ کی منظوری دی تھی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق مختلف وزارتوں نے 265 ارب روپے سے زائد کے فنڈز استعمال کرنے کے بجائے روکے اور یہ رقم بروقت حکومت کو واپس بھی نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق ہر سال 15 مئی سے قبل غیر استعمال شدہ فنڈز حکومت کو واپس کرنا لازمی ہیں، واپس کی گئی رقم پر بچت بھی 30 جون تک واپس کرنا ضروری ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق وزارتوں اور ڈویژنز نے یہ رقم خود استعمال کی اور نہ ہی اس سے دوسرے محکمے استفسادہ کر سکے، رقم بر وقت واپس کر دی جاتی تو دیگر وزارتوں اور ڈویژنز میں استعمال ہو سکتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 265 ارب سے زائد فنڈز سے متعلق ریکارڈ تصدیق کے لیے آڈٹ کو فراہم کیا جائے۔