Jasarat News:
2025-11-06@15:00:39 GMT

خطے میں جاری بڑا کھیل

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

250922-03-5

 

عارف بہار

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کو پہلو میں بٹھا کر افغانستان کی بگرام ائربیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے سنسی خیز انداز اپناتے ہوئے اخبار نویسوں کو مخاطب کرکے کہا یہ آپ کے لیے چھوٹی سی بریکنک نیوز ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی ائر بیس واپس چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس خواہش کی وضاحت کرتے ہوئے کہا بگرام ائر بیس اس مقام سے ایک گھنٹے کی دور ی پر ہے جہاں چین جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔ یوں امریکا نے خطے میں اپنے عزائم اور ارادوں کو زیادہ کھل کر بیان کر دیا۔ گویا کہ وہ چین کے ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے کے لیے افغانستان میں اپنی براہ راست موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ امریکا کی اس خواہش کے جواب میں افغانستان کے قائم قام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ کوئی بھی افغانستان پر جارحیت نہیں کر سکتا اگر ایسا کرے گا تو نتائج صاف ظاہر ہوں گے۔ جس نے بھی افغانستان میں شکست کھائی وہ دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ امیر خان متقی کے اس بیان سے واضح ہے کہ طالبان حکومت بقائمی ہوش وحواس ِ خمصہ امریکا کو بگرام ائر بیس میں قدم نہیں رکھنے دے گی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوحا میں طالبان نمائندوں اور امریکی حکام کے جب درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تو امریکیوں کی خواہش تھی کہ وہ باقی افغانستان تو خالی کریں گے مگر انہیں بگرام ائر بیس میں قیام کی اجازت دی جائے۔ افغان سوشل میڈیا انفلونسر اور طالبان کے حامی ایک صحافی وکیل احمد مبارز نے انکشاف کیاہے کہ امریکا کی اس خواہش کے جواب میں طالبان وفد نے دوٹوک انداز میں بتا دیا کہ اگر امریکا بگرام ائر بیس نہیں چھوڑے گا تو طالبان اگلے بیس سال مزید لڑنے کو تیار ہیں۔ اس سخت موقف کے بعد امریکا کے پاس بگرام ائر بیس خالی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ امریکا اس اڈے کو خالی تو کر بیٹھا مگر وہ رنج اور غصے کا شکار ہو کر رہ گیا۔

افغانستان کے صوبہ پروان میں قائم بگرام ائر بیس سوویت یونین نے 1950 میں تعمیر کی تھی۔ ستتر مربع کلومیٹر پر محیط یہ ایک مکمل اور جدید شہر ہے جس میں بازار، جیلیں، تعذیب کدے عبادت گاہیں غرضیکہ دنیا کی ہر سہولت اور آسائش موجود ہے۔ سوویت یونین کے بعد امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تو بگرام ائر بیس خطے میں ان کا سب سے بڑا ٹھکانہ تھا۔ امریکا کے تین صدور جارج ڈبلیو بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اڈے کا دورہ کرکے اپنے فوجیوں کا مورال بلند کرنے کی کوشش کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے امریکا کے فوجی انخلا کا آخری مرحلہ آسان بنایا مگر انہوں نے کئی بار اس مایوسی کا اظہار کیا کہ امریکا کو بگرام ائر بیس نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ افغانستان سے نکلتے ہی امریکا کو بگرام ائر بیس واپس حاصل کرنے کا خیال بھی آگیا تھا کیونکہ بگرام ائربیس صرف چین پر نظر رکھنے کے لیے ناگزیر نہیں بلکہ ایٹمی ملک پاکستان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے جب تک امریکی بگرام ائر بیس پر موجود رہے پاکستان اور چین ایک انجانے خوف کا شکار رہے۔ کئی مغربی جریدوں نے اس وقت انکشاف کیا تھا کہ بگرام ائر بیس میں ایک مخصوص فورس اس کام کے لیے مستعد ہے کہ خدانخواستہ جب پاکستان داخلی انتشار کا شکار ہوگا اور اس کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ پیدا ہوا تو یہ فورس آگے بڑھ کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول سنبھالے گی۔ بگرام ائر بیس سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد چین اور پاکستان دونوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

امریکا کی اس اسٹرٹیجک نوعیت کے اہم اڈے کی واپسی کی خواہش تازہ اور جوان رہی۔ طالبان کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان اور افغان حکمرانوں کے درمیان تعلقات بگڑتے چلے گئے۔ طالبان افغانستان میں پاکستان کا آخری انسانی اثاثہ تھے اس فصل کی کاشت پاکستان نے اپنے خون جگر اور کئی عالمی بدنامیاں مول لے کر کی تھی۔ امریکا کی ڈومور کی صداؤں میں عملی طور پر نومور کہہ کر عالمی عتاب کو دعوت دی تھی۔ المیہ یہ ہوا کہ وہی آخری اثاثہ جب کابل میں برسراقتدار آیا تو اسلام آباد اور کابل کی راہیں جدا ہوگئیں۔ پاکستان امریکا کے دائرۂ اثر میں چلا گیا اور طالبان نے امریکا اور بھارت کی خالی کردہ اسپیس میں چین کو سمونا شروع کر دیا۔ اس سے چند ہی برس قبل یوسف رضاگیلانی اپنی اسٹیبلشمنٹ کا یہ پیغام صدر اشرف غنی کو دینے کابل گئے تھے کہ وہ امریکا کے بجائے چین کی کشتی میں سوار ہوجائیں۔ یوسف رضا گیلانی کے واپس وطن لوٹتے ہی اشرف غنی نے امریکا کو شکایت لگانے کے انداز میں کہا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم انہیں چین کے ساتھ چلنے اور بیلٹ اینڈ روڈ کا حصہ بننے کی دعوت دینے آئے تھے۔ وقت ایسا پلٹا کہ اب طالبان کا کابل چینی سرمایہ کاری کا اہم ترین مرکز ہے اور پاکستان میں سی پیک التوا کا شکار ہو چکا ہے۔

یہ بات تو بڑی حد تک واضح ہے کہ افغان حکمران امریکا کو بگرام ائربیس نہیں دیں گے امریکا کی خواہش ہوگی کہ طالبان مخالف قوتوں کو یکجا کر کے اس ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی نذر کیا جائے جس کے بعد رجیم چینج کا عمل آسان ہوتا چلا جائے گا۔ جس کے لیے پاکستان کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لیے کابل اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ عملی طور پر کابل اور اسلام آباد میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے تو اعلانیہ کہہ دیا ہے کہ افغانستان ایک دشمن ملک ہے۔ سوال یہ ہے کہ سارے ہمسائے اگر دشمن ہیں تو پھر دوست کہاں سے ڈھونڈ لائیں گے؟ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہمسائے کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا۔ افغانستان میں امن نہیں ہوگا تو پاکستان میں بھی امن نہیں آئے گا اور بدامنی کا شکار ملک اگر پر لگا کر اْڑنا چاہے گا تو اسے حالات کے ریگزار پر رینگنا پڑتا ہے۔ جہاں امن نہیں ہوگا وہاں سرمایہ کاری ہوگی نہ اس کی کوئی عالمی نیک نامی ہوگی اور یہی پائیدار اور حقیقی ترقی کے لیے ضروری عوامل ہوتے ہیں۔ اس لیے خطے میں بڑا کھیل جاری ہے اور یہاں اپنے کارڈز اچھے انداز میں کھیل کر ہی حالات کے بھنور سے نکلا جاتا ہے مگر اس کے لیے شرط ہے کہ کوئی خود بھنور سے نکلنا چاہتا ہو۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکا کو بگرام ائر افغانستان میں امریکا کی امریکا کے کا شکار کے بعد کے لیے

پڑھیں:

دوحہ معاہد ے کی خلاورزی ‘ افغانستان پھر دہشتگر د تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا : اقوام متحدہ 

اسلام آباد (این این آئی) اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیر اقتدار افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے دوحہ امن معاہدے کے تحت یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشتگردی اور سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی تاہم حالیہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ القاعدہ اور طالبان کے روابط بدستور قائم ہیں بلکہ یہ تعلقات پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا کہ القاعدہ کے نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ دہشتگرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں۔ طالبان حکومت کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50 ہزار 500 امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔ محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ جعفر ایکسپریس دھماکے اور ژوب کنٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں دوحہ معاہدہ کے تحت افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن ہو۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کی روک تھام: پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات کا اگلا دور آج ہوگا
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی اورافغانستان
  • دوحہ معاہد ے کی خلاورزی ‘ افغانستان پھر دہشتگر د تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا : اقوام متحدہ 
  • پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر 
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں‘ طالبان
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام