افغانستان کی دہشت گردی کے حوالے سے دوغلی پالیسی بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
افغان حکومت نے ایک طرف امریکا سے دوحہ معاہدے کی داد رسی کی درخواست کی جبکہ دوسری جانب افغان حکومت اپنی سرزمین پر پاکستان مخالف دہشتگردوں کو تحفظ دینے میں مصروف ہے۔
افغانستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے مطالبے پر امریکا سے دوحہ معاہدے کی پیروی کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان حکومت نے امریکا کو یاد دہانی کروائی کہ ’’دوحہ معاہدے کے تحت اسے افغانستان کی علاقائی سالمیت اور آزادی کا احترام اور مداخلت سے گریز کرنا ہے۔‘‘
دوحہ امن معاہدے میں افغانستان نے اپنی سرزمین دہشتگردی اور پڑوسی ممالک میں دراندازی کے لیے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی تھی لیکن افغان حکومت کی دوحہ معاہدے کی پاسداری کی درخواست محض ڈھونگ ہے۔
شواہد سے ثابت ہے کہ ’’افغانستان، پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی سرپرستی جاری رکھنے میں مصروف ہے۔‘‘
پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی فتنۃ الخوارج کی دہشتگردی میں سہولت کاری کے شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے اور ان شواہد میں افغان سرزمین پر پناہ گزین فتنۃ الخوارج کے سرغنہ خارجی نور ولی محسود کی فون کال بھی شامل ہے۔ خارجی نور ولی، خارجی غٹ حاجی کو فون کال کی ریکارڈ ٹیپ میں دہشتگردی کی ہدایات دے رہا ہے۔
مارچ 2025 میں بلوچستان کے ٹوبہ کاکڑی میں گرفتار دہشت گرد اسام الدین نے اعتراف کیا تھا کہ ’’افغانستان سے سرحدی باڑ عبور کر کے پاکستان آیا۔‘‘
اسی طرح، 7 اور 8 اگست کے درمیان سیکورٹی فورسز نے سمبازا، بلوچستان میں افغان بارڈر سے داخل ہونے کی کوشش کرنے والے فتنۃ الخوارج کی بڑی تشکیل کے 47 دہشت گرد جہنم واصل کیے۔
ستمبر 2025 میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن حیدر میں حافظ گل بہادر گروپ کے خارجی عبدالصمد عرف صمد نے سرنڈر کرتے ہوئے افغانستان میں دہشتگردانہ تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
دوحہ معاہدے کی یاد دہانی کروانے والا افغانستان پہلے اپنے داخلی معاملات درست کرے اور دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کرے، دوغلی پالیسی اپنانے اور ڈھونگ رچانے کے بجائے افغانستان کو خطے میں امن کی راہ ہموار کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوحہ معاہدے کی افغان حکومت
پڑھیں:
افغان طالبان سے مذاکرات کا تیسرا دور،پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ برقرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول : پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور استنبول میں شروع ہوگیا ہے، جس میں دونوں فریقین نے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ اور ویری فکیشن مکینزم کے قواعد و ضوابط پر بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔
ترکیہ کی درخواست پر یہ مذاکرات آخری موقع کے طور پر جاری رکھے جا رہے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی اور سرحدی امن کے لیے کوئی قابلِ عمل نظام تشکیل دیا جا سکے۔
اس سے قبل دوسرا دور 25 اکتوبر کو استنبول میں ہوا تھا، جو پاکستان کے ایک نکاتی مطالبے افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق نہ ہونے کے باعث بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔ مذاکرات کے دوران افغان وفد بار بار کابل اور قندھار سے ہدایات لیتا رہا، جس سے پیش رفت سست رہی۔
تاہم مذاکرات کے اختتام پر ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے اعلامیہ جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ فریقین نے سیز فائر برقرار رکھنے، امن کے لیے مانیٹرنگ و تصدیقی نظام بنانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا کے اصول پر اتفاق کیا ہے۔ اسی تسلسل میں 6 نومبر کو اعلیٰ سطحی مذاکرات کے لیے بھی اتفاق رائے ہوا۔