کراچی:

سیلاب کے نقصانات سے کرنٹ اکاؤنٹ دوبارہ خسارے میں آنے، یورو بانڈز کے عالمی سرمایہ کاروں کو 30ستمبر تک 50کروڑ ڈالر کی ادائیگیوں کے دباؤ کے باعث زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں پیر کو ڈالر کی قدر اتارچڑھاؤ کے بعد بغیر کسی تبدیلی کے مستحکم رہی۔

انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے بیشتر دورانیے میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 20پیسے کی کمی سے 281روپے 25پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن پاکستان میں خدمات انجام دینے والی غیرملکی کمپنیوں کی اپنے اپنے ہیڈکوارٹرز کو زرمبادلہ کی صورت میں منافع بھیجنے کے لئے طلب بڑھنے سے کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 281روپے 45پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔

اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 282روپے 50پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔ سعودی عرب کے ساتھ تاریخ ساز اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان کے مختلف شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کی آمد بڑھنے کی توقعات سے مارکیٹ فنڈامینٹلز مثبت ہیں اور معاشی ٹیم کی موثر حکمت عملی کے نتیجے میں بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ نہیں ہے جس سے ڈالر کی قدر میں مزید بتدریج کمی کے امکانات برقرار ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بغیر کسی تبدیلی کے ڈالر کی قدر

پڑھیں:

ساختی اصلاحات کے بغیر قلیل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری عارضی قرار

لاہور:

اگرچہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تاہم صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک گہرے ساختی اصلاحات نافذ نہیں کی جاتیں، پاکستان میں قلیل مدتی سرمایہ کاری کے بہاؤ محض عارضی اور غیر پائیدار رہیں گے۔

مقامی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ چین، متحدہ عرب امارات اور بیلاروس سے حالیہ سرمایہ کاری کے وعدے حوصلہ افزا ضرور ہیں، لیکن انھیں معاشی لحاظ سے انقلابی نہیں کہا جا سکتا۔

ان کے مطابق یہ نئے منصوبے زیادہ تر سرمائے پر مبنی ہیں، جدت یا تحقیق پر نہیں، اور وہ ان کثیرالقومی کمپنیوں کے انخلا کا ازالہ نہیں کر سکتے جنھوں نے ملک میں تحقیق، ترقی اور کارپوریٹ گورننس کے اعلیٰ معیارات قائم کیے تھے۔

ایس ایم انجینئرنگ کے سی ای او ایس ایم اشتیاق نے کہاچینی صنعتی منصوبوں اور یو اے ای کی بینکاری دلچسپی کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے مگر سانوفی اور پی اینڈ جی جیسی کمپنیوں کے انخلا سے ملک کو ادارہ جاتی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ وقتی سرمایہ کاری سے ممکن نہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سے کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنا کاروبار بند یا محدود کیا ہے جن میں سانوفی، پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G) اور گلیکسو اسمتھ کلائن کنزیومر ہیلتھ کیئر شامل ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر میں ٹیلی نار اور کریم جیسے ادارے بھی مارکیٹ سے نکل چکے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 25ء میں ایف ڈی آئی کا حجم تقریباً 1.84 ارب ڈالر رہا، جو گزشتہ سال کے 1.9 ارب ڈالر سے کچھ کم ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے غیر یقینی اعتماد اور کمزور کاروباری ماحول کا پتہ چلتا ہے۔

اشتیاق کا کہنا تھا کہ حالیہ غیر ملکی سرمایہ کاری، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبوں میں، زیادہ تر سرکاری یا دو طرفہ منصوبوں جیسے سی پیک سے منسلک ہیں۔

یہ مارکیٹ پر مبنی سرمایہ کاری نہیں، اور یہ لازمی طور پر ٹیکنالوجی کی منتقلی، مقامی جدت یا پائیدار روزگار تخلیق میں مددگار نہیں بنتی۔صنعتی ماہرین کے مطابق بڑی دواساز کمپنیوں کا انخلا صرف زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ساختی کمزوریوں جیسے سخت قیمت کنٹرول اور کمزور دانشورانہ املاک کے تحفظ کے باعث بھی ہے۔

ٹیلی کام سیکٹر میں ملازمتوں میں کمی اگرچہ عالمی کاروباری تنظیم نو کا حصہ ہے تاہم یہ رجحان پاکستان میں پائیدار سرمایہ کاری کے فقدان کا اشارہ ضرور دیتا ہے۔

مارکیٹ کے سینئر تجزیہ کار محمد سلمان کے مطابق پاکستان کی ایف ڈی آئی پالیسی میں اب بھی پیش بینی اور شعبہ جاتی گہرائی کی کمی ہے۔ ہم ردعمل پر مبنی پالیسی سازی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔

حکومتیں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے وقتی مراعات دیتی ہیں مگر کاروبار برقرار رکھنے کے لیے پائیدار ماحول فراہم نہیں کرتیں۔

جب تک پالیسیاں مستقل، ٹیکس نظام شفاف اور قانونی نفاذ مضبوط نہیں ہوگا، پاکستان قلیل مدتی سرمایہ کار تو کھینچ لے گا مگر طویل مدتی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو کھو دے گا۔حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ توانائی، انفراسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں ملک مخصوص سرمایہ کاری کے لیے مختلف ممالک سے رابطے میں ہیں۔

تاہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ توجہ اب بھی بڑے سرمائے والے منصوبوں پر ہے، نہ کہ علم و تحقیق پر مبنی شعبوں جیسے آئی ٹی یا فارماسیوٹیکل پر، جو پائیدار اقتصادی اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک اور صنعت کار نے کہا کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن جب تک معاشی عدم استحکام اور زرِ مبادلہ میں غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہے گی، سرمایہ کاروں کا آنا جانا ایک معمول رہے گا تبدیلی نہیں آئے گی۔

ماہرینِ معیشت اور صنعت کار متفق ہیں کہ صرف غیر ملکی سرمایہ کافی نہیں۔ حقیقی اعتماد کی بحالی کے لیے اصلاحات پر مبنی طرزِ حکمرانی، کاروبار میں آسانیاں، اور سرمایہ کاروں کے حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں آج سونے کی فی تولہ قیمت کتنی ہے؟
  • عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت مستحکم
  • ایلون مسک ایک ٹریلین ڈالر معاوضہ لینے والے دنیا کے پہلے سی ای او بن گئے
  • ساختی اصلاحات کے بغیر قلیل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری عارضی قرار
  • سکھر بغیر نمبرپلیٹ اور غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کیخلاف کارروائیاں
  • کیماڑی میں ہٹس مسمار، ڈی سی کی بغیر نوٹس کارروائی
  • اوپن کرنسی مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدرمستحکم
  • کیا آپ جانتے ہیں؟ گھروں میں لال بیگ کی موجودگی انسانوں کی صحت پر کس خطرناک اثر کا باعث بنتی ہے
  • بِٹ کوائن 100,000 ڈالر سے نیچے، کرپٹو مارکیٹ میں خوف کی لہر
  • بٹ کوائن کریش! 4 ماہ کی کم ترین سطح پر قیمت، سرمایہ کاروں میں کھلبلی