اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 ستمبر ۔2025 )عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) اور پاکستان کے مابین ایک ارب ڈالر کی نئی قسط کیلئے مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں ہوں گے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن25 ستمبر سے 8 اکتوبر تک پاکستان کا دورہ کرے گا، پہلے مرحلے میں تکنیکی، دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات ہو گے.

وزارت خزانہ، توانائی، منصوبہ بندی، اسٹیٹ بنک کیساتھ مذاکرات ایجنڈے کا حصہ ہوگا، جبکہ ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر اداروں اور وزارتوں سے بھی مذاکرات ہوں گے آئی ایم ایف جائزہ مشن کے صوبائی حکومتوں سے بھی الگ الگ مذاکرات کے شیڈول بھی طے پا گئے ہیں.

(جاری ہے)

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق مشن کے دورہ پاکستان کے لئے ورکنگ حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، جبکہ ایف بی آر کے مجوزہ ٹیکس اہداف میں کمی کے بارے میں انفورسمنٹ پلان ورکنگ کا حصہ ہوگا، اس کے علاوہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کیلئے ریلیف بارے بھی تجاویز پیش ہوں گی سیلاب متاثرین کو فنڈز منتقلی،بجلی بلوں میں ریلیف ورکنگ کا حصہ، جبکہ وفد دورے میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لے گا.

ذرائع نے بتایا کہ مختلف وزارتوں کی کارکردگی کے اہداف کا جائزہ بھی مذاکرات کا حصہ ہوگا جبکہ ڈسکوز کی نجکاری سمیت دیگر بینچ مارکس اقتصادی جائزہ میں زیر بحث آئیں گے، مذاکرات مکمل ہونے پر پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط ملے گی، مشن کا دورہ 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت ہوگا.                                                                                                                                

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آئی ایم ایف کا حصہ

پڑھیں:

گلگت بلتستان وفاقی سازشوں کے شکنجے میں: تفصیلی جائزہ

اسلام ٹائمز: یہ لوٹ مار صرف معاشی نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ امریکہ اور چین دونوں یہاں کی معدنیات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی طاقتور لوگ ان کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستانی وزیر خارجہ سے معدنیات کی کان کنی کے بارے میں بات کی جو علاقے میں جاسوسی کی آڑ میں کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ گلگت بلتستان کو ایک نوآبادیاتی علاقہ بنا رہا ہے، جہاں وسائل نکالے جا رہے ہیں مگر ترقی صفر ہے۔ تحریر: ایس ایم مرموی

گلگت بلتستان یہ وہ خطہ ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی بلند و بالا پہاڑوں اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں کی یہ دولت ہی اس کی بدقسمتی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ وفاقی حکمرانوں اور بیرونی طاقتوں کی نگاہیں یہاں کے سونے، تانبے، جپسم، لیتھیم، یورینیم اور دیگر قیمتی معدنیات پر ٹکی ہوئی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس علاقے کو ہمیشہ تقسیم کرکے، لڑوا کر اور انتشار پھیلا کر قابض کیا گیا ہے۔ آج بھی یہی پرانی حکمت عملی نئے روپ میں جاری ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے، جہاں 2024ء اور 2025ء میں بڑھتے ہوئے احتجاج، معدنی وسائل کی لوٹ مار اور وفاقی پالیسیوں کے خلاف عوامی غم و غصہ عروج پر ہے، یہ موضوع ایک مفصل تجزیے کا متقاضی ہے۔

تاریخی پس منظر: تقسیم اور قبضے کی حکمت عملی

گلگت بلتستان کی تاریخ استحصال اور دھوکے کی داستان ہے۔ 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں یہ علاقہ جموں و کشمیر کا حصہ تھا، مگر برطانوی افسر میجر ولیم براؤن نے اسے پاکستان کے حوالے کردیا۔ براؤن نے گلگت سکاؤٹس کے ذریعے علاقے کو پاکستان سے ملانے کا اعلان کر دیا۔ آج بھی یہ علاقہ پاکستان کا نہ تو ایک مکمل صوبہ ہے اور نہ ہی اسے وفاقی پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے۔ یہ ایک "انتظامی علاقہ ہے جہاں فیصلے اسلام آباد سے ہوتے ہیں، اور مقامی اسمبلی محض ایک کٹھ پتلی ہے۔

2025ء میں یہ استحصال نئی شکلوں میں سامنے آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025ء نے علاقے کی زمینوں کو متنازعہ بنا دیا ہے، جس کے خلاف گلگت، سکردو اور شیگر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ یہ ایکٹ زمینوں کو چینی کمپنیوں اور وفاقی اداروں کے حوالے کرنے کا بہانہ ہے جبکہ اصل مالکان کو کچھ نہیں مل رہا، اسی طرح، معدنی وسائل کی کان کنی کے معاہدے خفیہ طور پر کیے جا رہے ہیں، جن میں امریکہ، چین اور پاکستانی افراد کی ملی بھگت شامل ہے۔

معدنی وسائل کی لوٹ مار وفاقی سازش کا مرکز
گلگت بلتستان معدنیات کا خزانہ ہے یہاں سونا، یورینیم، جواہرات، ماربل اور لیتھیم کی بڑی مقدار موجود ہے۔ مگر یہ وسائل مقامی لوگوں کی بجائے بیرونی طاقتوں کی جیب بھر رہے ہیں۔ 2025ء میں، شگر کے رہائشیوں نے معدنی وسائل کی کان کنی کے خلاف احتجاج کیا، الزام لگاتے ہوئے کہ وفاقی حکومت نے ان وسائل کو غیر ملکی کمپنیوں کو بیچ دیا ہے بغیر مقامی رضامندی کے۔ کے ٹو ایکشن کمیٹی نے یہ احتجاج منظم کیا جو زمینوں کی لوٹ اور وسائل کی چوری کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔

وفاقی ادارے جیسے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) معدنی کان کنی میں ملوث ہیں، مگر مقامی قبائل کو کچھ نہیں مل رہا۔ مثال کے طور پر۔ سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں یہاں کی ندیوں اور پہاڑوں کو استعمال کر رہی ہیں، مگر گلگت بلتستان کے گاؤں اب بھی تاریکی میں ڈوبے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ علاقہ پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر مقامی لوگوں کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

یہ لوٹ مار صرف معاشی نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ امریکہ اور چین دونوں یہاں کی معدنیات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی طاقتور لوگ ان کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستانی وزیر خارجہ سے معدنیات کی کان کنی کے بارے میں بات کی جو علاقے میں جاسوسی کی آڑ میں کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ گلگت بلتستان کو ایک نوآبادیاتی علاقہ بنا رہا ہے، جہاں وسائل نکالے جا رہے ہیں مگر ترقی صفر ہے۔

وفاق کی حکمت عملی واضح ہے بانٹو، لڑاؤ اور قابض ہو جاؤ۔ گلگت بلتستان میں شیعہ، اسماعیلی اور سنی فرقوں کو آپس میں لڑوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح، بلتی، شینا اور دیگر زبانیں استعمال کرکے لسانی تقسیم پھیلائی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق  تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی  بھول جائیں اور آپسی جھگڑوں میں الجھے رہیں۔

2024،25ء میں گندم کی سبسڈی ختم کرنے اور ٹیکسوں کے خلاف احتجاج اس کی مثال ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے قراقرم ہائی وے بلاک کی، خنجراب پاس بند کیا، اور وفاقی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ یہ احتجاج صرف معاشی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہیں لوگ آزادی اور حقوق مانگ رہے ہیں، مگر وفاقی حکومت ان احتجاج کو دبانے کے لیے انسداد دہشت گردی قوانین استعمال کر رہی ہے اور لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔

موجودہ صورتحال احتجاج اور مزاحمت کی لہر
2025ء کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ اپریل میں، گلگت بلتستان میں معدنی پالیسیوں کے خلاف بڑے احتجاج ہوئے، جہاں مذہبی رہنما آقا سید علی رضوی نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ یہ زمین ہماری ہے، فوج یا حکومت کی نہیں۔ جولائی میں، لینڈ گرابنگ کے خلاف سکردو اور گلگت میں مظاہرے ہوئے اور اب ستمبر میں بھی احتجاج جاری ہیں۔ خنجراب پاس 54 دن بند رہنے کے بعد کھلا، مگر تاجر اب بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج بتاتے ہیں کہ لوگ جاگ چکے ہیں مگر وفاقی ادارے انہیں خاموش کرنے کے لیے نگرانی، ڈرون حملے اور اغوا کا استعمال کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ پرامن ہیں، مگر اگر یہ استحصال جاری رہا تو بلتستان لبریشن آرمی جیسی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔

گلگت بلتستان کا مسئلہ صرف معدنیات کا نہیں بلکہ شناخت، حقوق اور مستقبل کا ہے۔ وفاقی سازشیں جاری ہیں، مگر عوام کو متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہم متنبہ کرتے ہیں کہ یہاں کی زمینوں اور پہاڑوں پر ڈاکہ نہیں چلے گا۔ 77 سال کی غلامی کے بعد، اب حقوق لینے کا وقت ہے۔ عوام جاگیں، متحد ہوں، اور اپنے وسائل کی حفاظت کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے نمائندے بھی وفاق کے غلام اور کھٹ پتلی ہیں، یہاں سے جو آرڈر ملتا ہے اس پر لبیک کہتے ہیں یہ اس خطے سے اور نہ اس قوم سے مخلص ہیں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، اب قوم کو بھی ان مقامی بہروپیوں امجد، حفیظ، رانا فرمان شمس لون جیسے مفاد پرستوں کو سمجھنا ہوگا نہیں تو یہ کسی دن سب کو بیچ دیں گے۔ 

متعلقہ مضامین

  • ایشیا کپ: سری لنکا کیخلاف میچ کیلیے پاکستانی ٹیم میں تبدیلی کا امکان
  • آئی ٹی سی این ایشیا 2025 کا کراچی میں آغاز ہوگیا، اہم معاہدوں کا بھی امکان
  • علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں
  • ڈاکٹروں کو ایچ-1 بی امریکی ویزا فیس سے استثنیٰ ملنے کا امکان
  • گلوبل صمود فلوٹیلا ایک ہفتے بعد غزہ کے ساحل پہنچے گا، اسرائیلی حملے کا خطرہ موجود
  • گلگت بلتستان وفاقی سازشوں کے شکنجے میں: تفصیلی جائزہ
  • انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی، روپے کو استحکام ملنے لگا
  • سی پیک فیز ٹو: پاک چین اقتصادی تعاون میں نئے دور کا آغاز
  • ایشیا کپ: بھارت کے خلاف میچ کیلیے پاکستان ٹیم میں اہم تبدیلیوں کا امکان