پشاور اور گردونواح زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
پشاور اور گردونواح میں زلزلے(earthquake) کے جھٹکے محسوس کئے گئے ، شہری خوف زدہ ہوکر گھروں سے باہر نکل آئے۔زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 5 ریکارڈ کی گئی۔ گہرائی 20 کلومیٹر تھی۔ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہے۔ پہلی تہہ کا نام یوریشین، دوسری انڈین اور تیسری اریبئین ہے۔زیر زمین حرارت جمع ہوتی ہے تو یہ پلیٹس سرکتی ہیں۔ زمین ہلتی ہے اور یہی کیفیت زلزلہ کہلاتی ہے۔زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتا ہے، يہ توانائی اکثر آتش فشانی لاوے کی شکل میں سطح زمین پر نمودار ہوتی ہے،زیادہ تر زلزلے فالٹ زون میں آتے ہیں، جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑتی ہیں۔پلیٹوں کے رگڑنے یا ٹکرانے کے اثرات عام طور پر زمین کی سطح پر محسوس نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے نتیجے میں ان پلیٹوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب یہ تناؤ تیزی سے خارج ہوتا ہے تو شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جسے سائزمک ویوز یعنی زلزلے کی لہر کہتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ
اسلام ٹائمز: برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ تحریر: ایچ ایس اے مغنیہ
تعارف:
یہ زمین کا سب سے خاموش خطہ ہے، مگر اس کی خاموشی کے نیچے طاقت کی ایک گونج سنائی دیتی ہے۔ گرین لینڈ، جس کی برف صدیوں سے سورج کی روشنی میں چمکتی رہی، آج دنیا کی بڑی طاقتوں کیلئے “سفید سونا” بن چکی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں برف کے نیچے چھپے خزانے نے انسانی تاریخ کی سب سے خاموش مگر خطرناک جنگ کو جنم دیا ہے، ایک ایسی جنگ جو بندوقوں سے نہیں بلکہ سرمایہ، سائنس اور سیاست سے لڑی جا رہی ہے۔
جغرافیائی اور اسٹریٹجک پس منظر:
گرین لینڈ صرف ایک جزیرہ نہیں، بلکہ دنیا کی جیوپولیٹیکل شطرنج کا مرکز بن چکا ہے، جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے، نئے سمندری راستے (Arctic Sea Routes) سامنے آ رہے ہیں، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے گھٹا رہے ہیں، یہی وہ راستے ہیں جہاں امریکا، چین، روس اور یورپ اپنی موجودگی کو مستحکم کر رہے ہیں، تاکہ آنے والے صدیوں میں “نارتھ پول” پر ان کا جھنڈا لہرا سکے۔
معدنی خزانے — طاقت کا نیا ایندھن:
برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ “گرین لینڈ خریدنے کی”۔ یہ پیشکش صرف ایک جزیرے کیلئے نہیں تھی، بلکہ عالمی طاقت کے توازن کو بدلنے کی خواہش کا اعلان تھی۔ روس، جو پہلے ہی آرکٹک کے پانیوں میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے، خاموشی سے وہاں اپنے آئس بریکر بحری جہازوں کے ذریعے “برف کے راستوں پر حکمرانی” کا خواب دیکھ رہا ہے۔
ترقی یا تباہی کی دہلیز؟
دنیا گرین لینڈ کو “معاشی موقع” کہتی ہے، مگر ماہرینِ ماحولیات اسے زمین کے مستقبل کیلئے تباہ کن الارم سمجھتے ہیں۔ برف کے تیزی سے پگھلنے سے جہاں معدنیات تک رسائی ممکن ہو رہی ہے، وہیں عالمی موسم کا توازن خطرے میں ہے، اگر یہی رفتار رہی تو 2100ء تک سمندری سطح کئی فٹ بلند ہو سکتی ہے اور دنیا کے ساحلی شہر نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔
مقامی قوم اور تہذیبی خطرہ:
انویٹ (Inuit) قوم صدیوں سے برف، شکار اور فطرت کے ساتھ جینے کی ماہر ہے، لیکن اب ان کے سامنے ایک سوال کھڑا ہے کہ کیا وہ اپنی زمین پر اجنبی بن جائیں گے؟ دنیا ان کے وسائل چاہتی ہے، مگر ان کی زبان، ثقافت اور شناخت کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑتی۔
اختتامیہ — برف کی گواہی:
گرین لینڈ کی برف صدیوں سے انسان کی فطرت کی خاموش گواہ رہی ہے، کبھی محبت، کبھی لالچ، کبھی طاقت کی۔ آج یہ گواہی پھر دہرائی جا رہی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ اب برف پگھل رہی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی ضمیر کی ٹھنڈک بھی، اگر دنیا نے اس دوڑ کو نہ روکا، تو شاید آنے والے زمانے میں تاریخ یہ لکھے:
"انسان نے زمین کا آخری خزانۂ برف تو پا لیا، مگر اپنی زمین کھو دی۔"