جی ایچ کیو حملہ کیس؛ ویڈیو لنک ٹرائل ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
راولپنڈی:
نو مئی، جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کے ویڈیو لنک ٹرائل کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کر دیا گیا۔
سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ کی جانب سے ہوم ڈیپارٹمنٹ نوٹیفکیشن بھی ہائی کورٹ چیلنج کیا گیا۔
درخواست میں موقف اپنایا کہ آئین آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل لازم قرار دیتا ہے، واٹس ایپ اور ویڈیو لنک ٹرائل میں وکلاء اپنے کلائنٹ سے مشاورت نہیں کر سکتے۔
استدعا کی گئی کہ ویڈیو لنک ٹرائل غیر قانونی و غیر آئینی ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے جبکہ واٹس اِیپ لنک سے جو بھی کارروائی بیان ریکارڈ ہوئے وہ بھی کالعدم قرار دیے جائیں۔
درخواست گزار کے مطابق جیل ٹرائل میں ملزم، وکلاء اور فیملی موجود ہوتی ہے جبکہ مشاورت بھی ہو سکتی ہے لیکن ویڈیو لنک اور واٹس اِیپ ٹرائل شفاف ٹرائل رولز کا قتل ہے۔ ارجنٹ نوعیت کے قانونی نکات ہیں، پٹیشن کی جلد سماعت کی جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ شفاف ٹرائل کے لیے ملزم عمران خان کو جیل سے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، نصف ٹرائل جیل سماعت میں ہوچکا بقیہ ٹرائل بھی اوپن جیل سماعت حکم دیا جائے۔
پٹیشن کل بدھ 25 ستمبر ابتدائی سماعت کے لیے جسٹس صداقت علی خان اور جسٹس وحید خان ڈویژن بینچ کے پاس مقرر ہونے کا امکان ہے۔
میڈیا سے گفتگو
عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ عمران خان کو کمرہ عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا لیکن نہ آواز ٹھیک آ رہی تھی اور نہ تصویر۔ ہم نے کہا بانی پی ٹی آئی سے ہماری بات کروائی جائے، ہم نے عدالت کے حکم پر بات کی کوشش کی لیکن ویڈیو لنک کمزور ہونے کے باعث بات نہ ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ کمرہ عدالت میں سب کے سامنے بات کرنا ممکن نہیں کیونکہ کچھ باتیں سب کے سامنے نہیں ہو سکتیں، کمرہ عدالت میں جو کچھ ہو رہا ہے بانی پی ٹی آئی اس سے لاعلم ہیں، ہم عدالت میں درخواست دے رہے ہیں ہمارے لیے ممکن نہیں اس ٹرائل کا حصہ بنے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ٹرائل کا جو تصور قانون میں ہے اس کا یہ مذاق ہے، کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے وار ملزم کو موقع ملنا چاہیے کہ اپنے وکلا سے بات کرے اور گواہوں کو دیکھ سکے، ملزم کو حق حاصل ہے کہ گواہوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے تاکہ گواہوں کے ہاتھ کانپ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو دانستہ طور پر بند کمرے میں ڈال دیا گیا تاکہ ہمیں دیکھ نہ سکیں، ہم واک آؤٹ کر کے آئے ہیں، ہم ہرگز اس ٹرائل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم نے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی پٹیشن دائر کر دی ہے اور امید رکھتے ہیں کل ہماری پٹیشن ٹرائل کے خلاف سنی جائے گی، جب تک یہ عمل اس طرح چلے گا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔
سماعت سے قبل گفتگو
سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم اوپن کورٹ اور اوپن ٹرائل چاہتے ہیں، واٹس ایپ ٹرائل کسی صورت منظور نہیں اور آج اس کے خلاف درخواست بھی دے رہے ہیں، یہ واحد مقدمہ میں ہے جس میں بند کمرہ سماعت ہے، ان کی کوشش ہے خان صاحب ایک واٹس ایپ پر ہوں لیکن وکلاء اور فیملی ان کے ساتھ نا ہوں۔
انکا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں بھی ایسا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ غیر قانونی قرار دیا تھا، وکلاء ساتھ ہوں تو کیس پر قانونی مشاورت ہو جاتی ہے، ڈیڑھ سال سے ٹرائل چل رہے اور ویڈیو لنک پر سماعت بانی پی ٹی آئی کو آئیسو لیٹ کرنے کی کوشش ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ عدالت میں گواہ وکلاء سب حاضر ہوں اور بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک پر ہوں، اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سب لوگ موجود ہوتے ہیں، بانی وہاں پر سب سے بات چیت اور مشورہ کر سکتے ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک ٹرائل بانی پی ٹی آئی عدالت میں نے کہا کہ
پڑھیں:
پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت؛ گرفتار اے ایس آئی کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب
کراچی:سندھ ہائیکورت نے پولیس حراست میں نوجوان عرفان کی ہلاکت سے متعلق گرفتار پولیس افسر کی ایف آئی اے کی جانب سے درج نئے مقدمے کے خلاف درخواست ریگولر بینچ کے روبرو قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کر لیے۔
قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو پولیس حراست میں نوجوان عرفان کی ہلاکت سے متعلق گرفتار پولیس افسر کی ایف آئی اے کی جانب سے درج نئے مقدمے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ اے ایس آئی عابد شاہ کی جانب سے درخواست آرٹیکل 199 کے تحت ریگولر بینچ کے روبرو دائر کی گئی۔
درخواست گزار کے وکیل عامر منصوب قریشی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے درج کیا گیا دوسرا مقدمہ غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ ایک واقعے کے ایک سے زائد مقدمات درج نہیں کیے جا سکتے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 199 کے تحت ریگولر بینچ کس طرح ریلیف دے سکتا ہے؟
عامر منصوب ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ریگولر بینچ ڈکلیریشن دے سکتا ہے، جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد ریگولر بینچ اس نوعیت کی درخواست پر ڈکلیریشن نہیں دے سکتا۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ٹھیک ہے پھر ہم 27 ویں ترمیم کا انتظار کر لیتے ہیں، وکیل کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عدالت نے درخواست کے ریگولر بینچ کے روبرو قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 11 نومبر تک ملتوی کر دی۔