سروائیکل کینسر سے بچا ئوکی ویکسین لانچ کی تو سارے افلاطون باہر آگئے، مصطفی کمال
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی ) وفاقی وزیر برائے صحت مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا 151 واں ملک ہے، جہاں سروائیکل کینسر سے بچا ئوکی ویکسین شروع کی گئی ہے، ہماری 25 ہزار بچیاں ہر سال سروائیکل کینسر سے متاثر ہو رہی ہیں مگر جب ہم نے یہ ویکسین لانچ کی تو کئی نام نہاد افلاطون باہر آگئے۔ وفاقی وزیر صحت نے منگل کو پمز اسپتال اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے پیدا ہو رہی ہیں، ہمارا ماحول لوگوں کو بیمار کر رہا ہے اور اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ بڑھاتا جا رہا ہے۔وزیر صحت کا کہنا تھا کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، ہمیں احتیاطی تدابیر اور بیماریوں سے بچا ئوپر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔انھوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا 151 واں ملک ہے، جہاں سروائیکل کینسر سے بچا کی ویکسین شروع کی گئی ہے۔ "جب ہم نے یہ ویکسین لانچ کی تو کئی افلاطون باہر آگئے، دنیا بھر میں کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں بچیوں کو یہ ویکسین لگوائی جاتی ہے اور کئی ممالک میں آٹھویں جماعت میں داخلے کے لیے اس ویکسین کی شرط لازمی ہے۔مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 25 ہزار خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے 75 سے 80 فیصد بچ نہیں پاتیں۔انھوں نے کہا جھلسنے والے مریض پاکستان میں بروقت اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جبکہ اسپتالوں میں جدید سہولتوں کے باوجود مریضوں کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر صاف پانی مہیا ہو تو اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ 68 فیصد کم کیا جا سکتا ہے، گلگت بلتستان سے کراچی تک آنے والا آلودہ پانی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، لیکن ہم اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک مریض اسپتال نہ پہنچ جائیں۔انھوں نے زور دیا ہمیں صحت کے شعبے میں روک تھام اور بچائو کی حکمت عملی کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ بیماریوں کا پھیلا روکا جا سکے۔مصطفی کمال نے مزید کہا کہ پاکستان میں جلنے والے مریضوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے، ہمیں ایسڈ پھینکنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی کرناپڑے گی، ہم اس سلسلے میں ہم ایسڈ برننگ کیسز کے مریضوں کو بہترین طبی سہولیات کے لئے کام کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سپارکو آئندہ ماہ جدید ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ لانچ کرے گا
پاکستان ایک بار پھر خلا کی دنیا میں بڑی پیش رفت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سپارکو آئندہ ماہ ایک جدید ہائپراسپیکٹرل سیٹلائٹ لانچ کرے گا جس سے زیرِ زمین معدنی وسائل کی تلاش کے ساتھ ساتھ زراعت، جنگلات، وائلڈ لائف، سیلاب، گلیشیئر کے پگھلاؤ، فضائی آلودگی اور اسموگ سے متعلقہ تحقیق کو بھی نئی جہت ملے گی۔
چیئرمین سپارکو محمد یوسف خان نے لاہور میں ازنیٹ، یعنی انٹرا اسلامک نیٹ ورک آن اسپیس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی، کے زیر اہتمام منعقدہ پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ صرف اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں ایک رہنما کردار ادا کر رہا ہے بلکہ خلا اور سیٹلائٹ امیجری کے میدان میں نمایاں پیش رفت بھی حاصل کر رہا ہے۔
اس ورکشاپ میں عراق، سینیگال، لیبیا، ترکیہ اور تیونس کے نمائندے شریک ہیں اور یہ پروگرام 22 سے 26 ستمبر تک جاری رہے گا۔ اس کا مقصد اوپن سورس ٹیکنالوجیز کے ذریعے ویب جی آئی ایس ڈیولپمنٹ کی تربیت دینا ہے تاکہ مختلف شعبوں میں سیٹلائٹ ڈیٹا کو ملا کر مؤثر ایپلی کیشنز تیار کی جاسکیں۔
محمد یوسف خان کے مطابق اکتوبر میں لانچ ہونے والا ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ زمین کی سطح سے روشنی کے مختلف طول موجوں کا تجزیہ کرکے معدنیات، پودوں، مٹی اور پانی کے معیار تک کی معلومات فراہم کرے گا۔ پہلے جن سرویز پر برسوں اور کروڑوں روپے خرچ ہوتے تھے، اب وہی تجزیہ چند دنوں اور کم لاگت میں ممکن ہوگا۔
اس سیٹلائٹ سے پاکستان معدنی ذخائر کی نقش بندی میں زیادہ خود مختار ہو جائے گا اور زمین کے قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کی راہ ہموار ہوگی۔
سپارکو میں ویب ایپلی کیشنز ڈیولپمنٹ کے شعبے کے انچارج ڈاکٹر محمد منشا نے اس موقع پر کہا کہ جدید اوپن سورس ٹیکنالوجیز کے ذریعے ویب جی آئی ایس کی تربیت آج کے دور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق یہ تربیت ماہرین کو یہ سہولت دے گی کہ وہ اپنے شعبے سے متعلق ڈیٹا کو سیٹلائٹ امیجری کے ساتھ ملا کر ایسے ایپلی کیشنز بنا سکیں جو زراعت سے لے کر ماحولیاتی نگرانی اور قدرتی آفات کے انتظام تک عوامی فلاح کے مختلف پہلوؤں میں کارآمد ہوں۔
ڈاکٹر منشاء کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقی ادارے اور پالیسی ساز زیادہ درست اور بروقت فیصلے کر سکیں گے۔
ہائپراسپیکٹرل امیجری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام سیٹلائٹ امیجری کے مقابلے میں کہیں زیادہ تفصیلی ڈیٹا فراہم کرتی ہے اور ہر پکسل میں سیکڑوں بینڈز ریکارڈ کرتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ ٹیکنالوجی ماحولیاتی نگرانی، پودوں کی اقسام کی شناخت اور آلودگی پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں پہلے سے موجود ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس زراعت اور قدرتی آفات کی نگرانی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، لیکن نیا ہائپراسپیکٹرل سیٹلائٹ ان صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا دے گا۔
غیر ملکی شرکاء کے مطابق لاہور میں جاری یہ ورکشاپ نہ صرف تکنیکی مہارت بڑھانے کا ذریعہ ہے بلکہ باہمی تعاون اور جدت کے نئے مواقع بھی فراہم کر رہی ہے۔ سپارکو حکام کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستان خلا سے متعلق جدید ٹیکنالوجی میں اپنا مقام مزید مستحکم کرے گا اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک ماڈل بنے گا۔