غزہ ایک بار پھر اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گیا، جہاں آج کے روز مزید 59 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر عام شہریوں پر دہشت مسلط کر رہی ہے، اور ہزاروں افراد کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
قطری نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق صرف آج صبح کے وقت 51 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے 36 غزہ شہر میں جان کی بازی ہار گئے۔ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں ایک امدادی مرکز کے باہر 8 شہریوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کھانے کے انتظار میں قطار میں کھڑے تھے۔
 غزہ شہر اس وقت مکمل محاصرے میں ہے، جہاں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی اور شدید بمباری جاری ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے علاقے میں کی جا رہی ہے جو پہلے ہی انسانی بحران کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں اب تک 65 ہزار 382 فلسطینی شہید اور 166 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ ہسپتال نہیں، ذبح خانہ ہے” — ڈاکٹر ندا ابو العرب
آسٹریلوی ڈاکٹر ندا ابو العرب، جو اس وقت غزہ شہر کے الشفا اسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں، نے الجزیرہ سے گفتگو میں دل دہلا دینے والے مناظر بیان کیے۔

انہوں نے کہا  آپ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ ہاتھ کس کا ہے، یہ ٹانگ کس کی ہے۔ لاشیں اس حالت میں آتی ہیں کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ منظر کسی ہولناک فلم جیسا ہے۔ اسپتال، اسپتال نہیں بلکہ ذبح خانہ یا قبرستان بن چکا ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ بمباری مسلسل جاری ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے ہر ممکن ہتھیار آزمائے جا رہے ہوں۔  یہ قتل عام ہے — ہر سمت سے، ہر لمحے۔ بچوں کی حالت ناقابلِ بیان ہے، ان کے جسم چیتھڑوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ سب ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہے۔”
 ڈاکٹر ندا ابو العرب نے عالمی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ کیسے جاری رہنے دیا جا رہا ہے؟ کیوں کوئی حکومت یا عالمی طاقت اسے روکنے کی ہمت نہیں کر رہی؟ ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر لمحہ کسی پورے خاندان کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں ہر شخص صرف اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔
عالمی برادری کا دباؤ
 غزہ میں انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے 25 یورپی ممالک اور کینیڈا نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے زخمیوں کے طبی انخلا کے لیے راہداری کھولے اور مغربی کنارے و مشرقی یروشلم تک رسائی ممکن بنائے۔
 بیان میں کہا گیا کہ زخمیوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے اور ان ممالک نے مالی معاونت، طبی عملہ اور مطلوبہ سامان فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
اس اتحاد نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادویات اور طبی سامان کی ترسیل پر تمام پابندیاں ختم کرے، اقوامِ متحدہ کو انسانی ہمدردی کا کام بلا رکاوٹ جاری رکھنے دے اور طبی عملے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق مکمل تحفظ فراہم کرے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فلسطینی شہید

پڑھیں:

اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ  کردیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق امریکا میں بائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کو دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔

یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔

اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔

سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور دی بیچ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔

الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔

فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔

یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے  مزید  15 فلسطینی لاشیں واپس کردیں
  • فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام، ترکیہ نے نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک پر اسرائیلی افسرہ گھر میں نظر بند
  • غزہ میں مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں وصول‘ مجموعی تعداد 285 ہو گئی
  • اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ  کردیں
  • غزہ کی تعمیر نو میں اسرائیلی کردار پر سوال کیوں پوچھا؟ اطالوی صحافی ملازمت سے برطرف
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان پر بمباری، ایک شہید متعدد زخمی
  • SECP،کم عمر افراد کیلئے ٹریڈنگ اکاؤنٹ کھولنے کی گائیڈ لائنز جاری
  • کم عمر افراد کے لیے ٹریڈنگ اکاؤنٹ کھولنے کی گائیڈ لائنز جاری
  • غزہ میں مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں وصول، مجموعی تعداد 285 ہو گئی