WE News:
2025-11-10@09:45:14 GMT

قدرت کے ننھے چراغ کہاں گئے؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

قدرت کے ننھے چراغ کہاں گئے؟

جگ مگ، جگ مگ کرتی روشنی، پکڑنے کی جستجو، ہاتھ میں آجائے تو خوشی دیدنی۔

ہم ذکر کر رہے ہیں ماضی کے بچوں کے زندگی میں خوشی کے رنگ بکھیرنے والے جگنوؤں کی۔

پہلے پروین شاکر کا یہ خوبصورت شعر پڑھیے،

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

یہ دوسری بات ہے کہ آج کے بچے کیا جانیں کہ رات کے وقت جگنو  بچوں کی زندگی کو کیسے روشن کرتے تھے، چھوٹے چھوٹے  ٹم ٹم کرتے یہ جگنو کبھی ادھر تو پل بھر میں کبھی ادھر چلے جاتے، پھر نظر بھی آ جاتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے کچھ ایسے روٹھے کہ اب مان ہی نہیں رہے۔

جگنو مکھی نہیں بلکہ بھونروں کی ایک قسم ہے، انہیں چمکدار کیڑا  بھی کہا جاتا ہے، شمالی امریکا، برطانیہ، برازیل، کیوبا اور یورپ اس کے خاص مسکن ہیں۔

یہ انٹارکٹیکا کے علاوہ تقریباً ہر براعظم پر پائے جاتے ہیں اور اس کی اہم وجوہات میں انٹارکٹیکا کا انتہائی سرد موسم اور خوراک کی کمی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں  ان کی 2 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، صرف آسٹریلیا میں اس کی 20  اقسام ہیں۔ یہ عام طور  گرم علاقوں، دلدلی جگہوں اور جنگلات میں پائے جاتے ہیں، شہر کے پارکوں یا پھر پودوں کے قریب بھی نظر آ جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جگنو آلودگی ناپنے والا قدرت کا پیمانہ ہیں، یعنی جب ماحول صاف ہو تو یہ زیادہ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ننھے کیڑے ہمیں یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہمارا ماحول کتنا صاف ہے مگر یہ خود انسانوں کے کیے کا نشانہ بن گئے۔

دنیا بھر میں جگنوؤں کی تعداد میں کمی کی کئی وجوہات ہیں، اندھیرا جگنوؤں کو خوب بھاتا ہے، تیز روشنی ان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ موبائل فون ٹاورز، وائی فائی اور دیگر وائرلیس سگنلز جگنوؤں کی تعداد میں کمی کا سبب ہیں، برقی روشنیاں دیکھنے میں آنکھوں کو خوب بھاتی ہیں مگر ان چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی زندگی اور بقا میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

نر جگنو اپنی مادہ کو مختلف سگنلز بھیجتے ہیں، تیز روشنیوں کے باعث ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آلودگی بھی ان ننھے چمکتے کیڑوں کی زندگی مشکل بناتی ہے۔ مصنوعی روشنی کے علاوہ  کیڑے مار ادویات کا استعمال بھی جگنوؤں کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ کیڑے مار دواؤں سے کینچوے ناپید ہوئے تو اس کے باعث جگنوؤں کی تعداد میں کمی ہوئی۔

جگنوؤں میں نر اور مادہ میں بھی فرق ہوتا ہے، کچھ اقسام میں مادہ کے پر نہیں ہوتے اور یہ رات کے وقت زمین پر رینگتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ نر جگنو عموماً اڑتے اور چمکتے ہیں، یہ پودوں کا رس یا شہد کھاتے ہیں جبکہ کچھ صرف پانی پر گزارا کرتے ہیں۔ بعض اقسام میں مادہ نر سے کہیں زیادہ بڑی بھی ہوتی ہے۔

جگنوؤں کی کئی اقسام کو شدید خطرات ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور برطانیہ کے وہ جگنو بھی شامل ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ روشن ہوتے ہیں اور پھر ایک ساتھ ہی روشنی دینا بند کر دیتے ہیں۔  بلو گوسٹ نامی جگنو بھی خطرے سے دوچار ہیں اور اس کی بڑی وجہ انہیں دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ہیں۔ ملائیشیا میں پام آئل کی کاشت کے لیے مینگرووز کے درختوں کی کٹائی سے بھی جگنو خطرے میں ہیں ۔

جگنوؤں کی پہچان ان کی روشنی ہے، اسی سے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں مگر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہر جگنو لازمی طور پر روشنی نہیں بکھیرتا۔

جگنو اپنی روشنی کا استعمال صرف ساتھی کو بلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی کرتے ہیں، کسی حملے کی صورت میں یہ کڑوے ذائقے والا خون کا قطرہ نکالتے ہیں، جسے “Reflex Bleeding” کہا جاتا ہے۔ اور حملہ آور مکڑی یا کوئی اور کیڑا اسے چکھنے کے بعد جگنو کو کھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ مادہ جگنو اپنی روشنی سے کچھ نر جگنوؤں کو بلا کر انہیں کھا بھی جاتی ہیں۔

جگنو روشنی کیسے پیدا کرتے ہیں، اسے بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے، جگنو کے جسم میں موجود ایک کیمیائی مادے اور  آکسیجن کے ملاپ سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں حرارت پیدا نہیں ہوتی، اس لیے یہ روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے، صرف زندہ جگنو نہیں، کبھی کبھی ان کے انڈے بھی چھونے پر روشنی چھوڑتے ہیں۔ جگنو  پیلی، سبز، نارنجی اور نیلی روشنی بکھیرتے ہیں۔

دیگر کیڑوں کی طرح جگنو کی پیدائش کے بھی 4 مرحلے ہوتے ہیں، سب سے پہلے مادہ جگنو گھاس یا نم مٹی میں چھوٹے انڈے دیتی ہے، کچھ ہفتوں بعد انڈے سے چھوٹا سا کیڑا نکلتا ہے، جسے لاروہ کہتے ہیں، پھر یہ پیوپا اپنے گرد ایک خول بناتا ہے اور اسی میں نیا جسم بننے لگتا ہے۔

کچھ دن بعد اس خول سے روشنی والا بالغ جگنو نکل آتا ہے، جس کے پر ہوتے ہیں اور یہ اڑ بھی سکتا ہے ۔ ایک انڈے سے جگنو بننے کا عمل عموماً 2 سے 3 ماہ لیتا ہے اور کبھی کبھی تو اسے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے مگر بالغ جگنو کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی، اکثر اوقات تو صرف چند ہفتے روشنی بکھیرنے کے بعد ہی مر جاتے ہیں۔

شاعری میں بھی جگنوؤں کا ذکر ملتا ہے، شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی جگنو کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔

علامہ اقبال کی نظم جگنو کے چند اشعار

جگنو کي روشنی ہے کاشانہَ چمن ميں

يا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن ميں

آيا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

يا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن ميں

يا شب کی سلطنت ميں دن کا سفير آيا

غربت ميں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن ميں

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرہ ہے يا نماياں سورج کے پيرہن ميں

بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظم ہمدردی میں بھی ایک پیغام ہے۔

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اڑنے چگنے میں دن گزارا

پہنچوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

سن کر بلبل کی آہ و زاری

جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

جگنو کے نام سے فلمیں اور ڈرامے بھی بنے، 1947 کی دلیپ کمار اور نور جہاں کی کلاسک فلم جگنو کے کیا کہنے۔ ہم ٹی وی کا ڈرامہ جگنو بھی دیکھنے والوں کی یادوں کو مہکاتا رہتا ہے۔ آپ نے علی ظفر کا برسوں پرانا گیت  جگنوؤں سے بھر دے انچل بھی یقیناً سنا ہو گا۔

جگنو ہے تو ایک چھوٹا سا کیڑا، مگر یہ ہمیں ایک نہیں کئی سبق سکھاتا ہے، جیسے اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی اور ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کی تعداد میں جگنوؤں کی کرتے ہیں بھی جگنو جاتے ہیں ہیں اور جاتا ہے جگنو کے جگنو کو کے لیے

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل

اوڑھے ہوئے ہے آج جو گردو غبار شخص
ہوتا تھا اپنی ذات میں باغ و بہار شخص 
اک بار بھی نہ دیکھا اسے تو نے کم نظر 
آتا رہا جو در پہ ترے باربار شخص 
چہرہ بھی اپنا دیکھ نہ پایا تمام عمر 
جو آئنوں کا کرتا رہا کاروبار شخص
اس سے بھی پوچھتے ہو مدد کیا کریں تری؟
جو ہے ضروریات کا اک اشتہار شخص 
چھا جائے گا سکوت فضا میں چہار سمت
جب جائے گا جہان سے وہ بیقرار شخص
اپنا ہی دل نہیں ہے مرے اختیار میں 
میں ہوں نگاہ غیر میں بااختیار شخص 
آتے ہی رات ہوگیا تنہا جمیل ؔوہ
کرتا تھا سائے پر جو بڑا انحصار شخص
(صادق جمیل۔ لاہور) 

غزل
قدم قدم پہ اذیت نے سر قلم کیا ہے 
پھر اس کے بعد سخن ور نے مجھ پہ دم کیا ہے 
میں جھیلتا چلا آیا ہوں جس کی وحشت کو
اسی کے خوف سے تصویر کو بہم کیا ہے 
گرفت تھوڑی سی مربوط کر رہا ہوں میں دوست
مجھے خبر ہے کہ کس کس  نے یہ کرم کیا ہے 
سفر سے لوٹ کے آؤں گا اور دیکھوں گا 
کہ کس نے منہ مرا نوچا ہے کس نے غم کیا ہے
ملے گا وقت تو سوچوں گا اس کے بارے میں
حضور آپ نے احساں جو دم بہ دم کیا ہے
طلسم گاہ سے آئیں گی جب صدائیں ندیمؔ
میں تب کہوں گا کہ میں نے بھی کچھ رقم کیا ہے
(ندیم ملک ۔ کنجروڑ، نارووال)

غزل
گھر سے باہر بھی تو آ سکتے ہیں
سر پرندے بھی اٹھا  سکتے ہیں
حادثہ خواب میں ہو سکتا ہے
زخم بستر پہ بھی آ سکتے ہیں
میرے بارے میں بتائیں مجھ کو
آپ جتنا بھی بتا سکتے ہیں
ایسے چہرے ہیں مری نظروں میں
جو مری نیند اڑا سکتے ہیں
ایسے لگتا ہے پرندوں سے مجھے
یہ مرے خواب چرا  سکتے ہیں
آپ سے اور توقع بھی نہیں
آپ بس آگ  لگا  سکتے ہیں
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)

غزل
ضرورتوں کے بہاؤ میں خواب ڈوب گئے
 نجانے کتنے ہی یوں آفتاب ڈوب گئے
تمہاری آنکھ کی کوئی بھی تاب لا نہ سکا
تمہیں تو تَک کے کئی ماہتاب ڈوب گئے
گلاب بیچنے والی ندی کنارے پر
یہ کہہ کے رو پڑی!’سارے گلاب ڈوب گئے‘
ہم اپنی آنکھ کے اُس معجزے پہ حیراں تھے
ہماری آنکھ میں جب کچھ چناب ڈوب گئے
کسی عجیب اداسی کی پہرے داری میں
سکوں کے ساتھ سبھی اضطراب ڈوب گئے
جدا پڑی تھی بدن سے ہر ایک کی گردن
لہو کے رنگ میں پھر انقلاب ڈوب گئے
پھر اُس کہانی کا انجام کس نے لکھنا تھا
وہ جس کے لکّھے ہوئے انتساب ڈوب گئے
میں شعر کہہ ہی رہا تھا کہ ایک دن شوزبؔ
صدا بھی ڈوب گئی،انتخاب ڈوب گئے
(شوزب حکیم۔شرقپور، ضلع شیخوپورہ)

غزل
زمیں پہ آنکھ رکھی آسماں پہ شعر کہے
فقیر ہو کے ترے آستاں پہ شعر کہے
گزر رہی تھی کسی دشتِ بے اماں میں حیات
سفر کے مارے ہوؤں نے مکاں پہ شعر کہے
بہت دنوں سے ترس آ رہا تھا خود پہ مجھے
سو آج زخم کو چوما، نشاں پہ شعر کہے
امر کیا ترے نقشِ قدم کو غزلوں سے
جہاں جہاں سے تُو گزری وہاں پہ شعر کہے
تمھاری آنکھ پہ مرتے ہوئے سپاہی کو 
بدن پہ تیر لگا تو کماں پہ شعر کہے
ہمارے بعد بہاریں ہیں یہ کہا تھا نا؟ 
ہمارے بعد بتاؤ کہاں پہ شعر کہے
ہمارے خواب کا جب گھر نہیں بچا تو حسنؔ
شجر کو دل میں رکھا آشیاں پہ شعر کہے
(حسیب الحسن ۔خوشاب)

غزل
ایک بڑھاپا بچپن میں اترا اور ایک جوانی میں
ہم نے بھی ہر درد لگایا سینے سے، نادانی میں
آج بھی اس کے پیار کے جملے سبز ہیں اور سنہرے ہیں
آج بھی ایک نیا پن سا ہے اُس کی بات پرانی میں
ہم دونوں میں ایک ذرا سا فرق نہیں ملنے والا
تم چاہو تو دیکھو مجھ کو لے جا کر ویرانی میں
مجھ کو آسانی سے سننے تم تو قریب آ جاتی ہو
لیکن مجھ کو مشکل پڑ جاتی ہے اس آسانی میں
اب یہ تیری مرضی، اُس کو دیکھ یا اُس کی باتیں سُن
ایک فقیر ہے سامنے تیرے، اک درویش کہانی میں
رنگ سرابی، جسم فریبی، لب پر جھوٹ کا جھرنا ہے
آنکھوں جیسی سچی ایک بھی بات نہیں مر جانی میں
دریا اور میں، دونوں اُس کی گہرائی میں گم صم تھے
گہری لڑکی گہرا دیکھ رہی تھی گہرے پانی میں
(زین شکیل۔گجرات)

غزل
بے دلی تجھ سے مخاطب نہیں اے زندہ دل
اِس قدر خوف مناسب نہیں اے زندہ دل
یہ مشینوں کی بنائی ہوئی دنیا ہے یہاں
کسی پر کوئی بھی غالب نہیں اے زندہ دل
تجھے کیا موسموں کی دل کشی سے مطلب ہے
تیری جانب کوئی راغب نہیں اے زندہ دل
شاہ زادی کے لیے حفظِ مراتب اور ہیں
محض یہ پھول مناسب نہیں اے زندہ دل
ہر کسی سے نہ محبت سے یہاں پیش آؤ
لوگ اتنے بھی مہذّب نہیں اے زندہ دل
عیش و عشرت کی یہ خُو اپنے لیے اچھی نہیں 
ہم کسی شہ کے مصاحب نہیں اے زندہ دل
شہر آباد کیے رکھنے سے کیا ہو گا اگر
ایک بھی شخص مہذّب نہیں اے زندہ دل
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

غزل
کچھ لوگوں کی سوچیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کو منزل جان سے پیاری ہے
کچھ لوگوں کو راہیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں سے دل کے رشتے ہوتے ہیں
کچھ لوگوں کی شکلیں اچھی لگتی ہیں
سب کو اپنا مذہب اچھا لگتا ہے
سب کو اپنی باتیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کو سورج اچھا لگتا ہے
کچھ لوگوں کو راتیں اچھی لگتی ہیں
جس کو دیکھ کے سکتہ طاری ہوجائے
اصغرؔ ایسی آنکھیں اچھی لگتی ہیں
(اصغر بھٹی ۔نارووال)

غزل
نہیں آئے گا وہ واپس خدارا بھول جاؤ اب
بھنور کی زد میں آئے ہو کنارا بھول جاؤ اب
اگرچہ زندگانی میں خسارے ہی خسارے ہیں
دلاتا وہ دلاسہ ہے خسارا بھول جاؤ اب
وہ مجھ سے آ کے کہتا ہے میں تیرا ہو نہیں سکتا
کیا جو تھا کبھی میں نے اشارا بھول جاؤ اب
کہا یہ خواب میں آ کر کہ میں تو لوٹ آیا ہوں
بناں میرے جو جو لمحہ گزارا بھول جاؤ اب
جو تارا رات کو تم دیکھتے تھے، مسکراتے تھے
وہ راتیں بھول جاؤ اب وہ تارا بھول جاؤ اب
وہ موجِ بیکراں جس میں تھا ساگرؔ کا جنوں شامل
نہیں مچلے گا پھر سے تم وہ دھارا بھول جاؤ اب
(رجب علی ساگر ۔ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور)

غزل
آپ کے واسطے تو صرف بھرم رکھنا ہے 
وہ کسی کے لیے تاروں پہ قدم رکھنا ہے 
آپ کی مرضی ہے دوڑیں کہ افق پار اڑیں 
ہاں مگر ایک قدم سوئے عدم رکھنا ہے 
کار دنیا بھی تو ہوتا ہے محبت میں شمار 
کتنا مشکل ہے کہ دونوں کو بہم رکھنا ہے
دید سے خالی ہی رکھنا ہے مری آنکھوں کو 
اس نے ٹھانی ہے کہ صحراؤں کو نم رکھنا ہے 
اب مرے زخم نہ گن، مجھ کو مرے حال پہ چھوڑ 
تو نے کس کس پہ بھلا دست کرم رکھنا ہے 
جینے والے سے اب اتنی بڑی امید نہ رکھ 
اس نے تربت پہ تو اک پھول بھی کم رکھنا ہے 
وقت تخلیق بھی شائق ؔنے بس آمین کہا 
اس نے بتلایا یہاں دل نہیں غم رکھنا ہے 
( شائق سعیدی ۔ رحیم یار خان)

غزل
دیکھتے ہو کہ کوئی دیکھنے والا تو نہیں
چاند ہے آنکھ میں یہ چاند کا ہالہ تو نہیں
پیاس کو باندھ لیا پیٹ پہ پتھر کرکے
میں نے دریا کو سمندر سے نکالا تو نہیں
خوگرِ حرص تجھے جان کے مفلس رکھا
میں نے سکے کو تری سمت اچھالا تو نہیں
میری سچائی ترے زہر میں شامل ہے میاں
میرا مٹی کا پیالہ بھی پیالہ تو نہیں
واقفِ ہجر نئے شعر سناتا ہوں تجھے
یہ حوالہ ہے مرا اور حوالہ تو نہیں
ساعتِ وصل گھڑی بھر ہی سجھائی دے دے
دشتِ ہجراں میں مگر اتنا اجالا تو نہیں
(سید فیض الحسن فیضی۔ پاکپتن)

غزل
میں ہر اک قافلے کے جسم و جاں میں خوفِ محشر ہوں
چلے جو چشمِ صحرا میں وہی میں بادِ صر صر ہوں
کھنکتا ہوں گلستاں میں گلِ تازہ کی نظروں میں
سمجھ لو برگِ آوارہ کی مانند ایک بے گھر ہوں
مرے درد و الم کا آپ کو اندازہ کیا ہوگا
میں جنت کے کسی گوشے کا اک برباد منظر ہوں
لرزتی آنکھ ہوں شاید کسی معصوم لڑکی کی
مجھے دیکھو میں اپنی ذات میں ہی خوفِ محشر ہوں
مری اس زندگی کی پائیداری ہے شہاب ؔاتنی
ہٹا دے گا کوئی آخر ترے رستے کا پتھر ہوں
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا،دیر لوئر،خیبرپختونخوا)

غزل
باتوں میں گر نہ جن کی روایت دکھائی دے 
ہر جا ،ہر مقام پہ ذلت دکھائی دے 
شاید اس ایک شخص کا انداز ہو غلط 
لیکن مجھے وہ نیک ہی نیت دکھائی دے 
اکثر نفاق و جھوٹ میں پایا گیا ہے وہ 
وحشت دکھائی دے کبھی دہشت دکھائی دے 
ظاہر بنا لو کچھ بھی مگر غور سے سنو 
انسان کی خلوص میں قیمت دکھائی دے 
اچھے برے کا علم ہی انسان کو نہ ہو 
ایسے میں بے وقار نصیحت دکھائی دے 
 احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں 
الٹا ہی یہ تو باعث ِزحمت دکھائی دے
محفل میں دوستوں کی تُو قاضی ؔضرور بیٹھ
لیکن پھر اٹھ کے بھاگ جو غیبت دکھائی دے
(قاضی محمد آصف ۔کراچی)
 

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

متعلقہ مضامین

  • علم و ادب کا چراغ بجھ گیا، پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کرگئیں
  • شمشال ویلی کی پہلی طبیب لعل پری
  • علامہ اقبال کا فلسفہ خودی روشنی کا مینار ہے،مفتی فیض
  • کوچۂ سخن
  •  پاکستان اور سری لنکا ایک روزہ سیریز کے میچ آفیشلز کا اعلان، کون سا میچ کہاں کھیلا جائے گا؟
  • ڈیڑھ کروڑ میں 35 کلو سونا کہاں ملتا ہے؟ مشی خان نے ڈاکٹر نبیہا کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • اسلامی یکجہتی گیمز میں پاکستان کا ایک اور میڈل یقینی ہوگیا
  • خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟
  • کابینہ اجلاس، پیپلز پارٹی کی تجاویز کی روشنی میں 27ویں ترمیم پر غور کیا جائے گا
  • فکری یلغار کا مقابلہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ممکن ہے‘ اکرام اللہ