قدرت کے ننھے چراغ کہاں گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
جگ مگ، جگ مگ کرتی روشنی، پکڑنے کی جستجو، ہاتھ میں آجائے تو خوشی دیدنی۔
ہم ذکر کر رہے ہیں ماضی کے بچوں کے زندگی میں خوشی کے رنگ بکھیرنے والے جگنوؤں کی۔
پہلے پروین شاکر کا یہ خوبصورت شعر پڑھیے،
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
یہ دوسری بات ہے کہ آج کے بچے کیا جانیں کہ رات کے وقت جگنو بچوں کی زندگی کو کیسے روشن کرتے تھے، چھوٹے چھوٹے ٹم ٹم کرتے یہ جگنو کبھی ادھر تو پل بھر میں کبھی ادھر چلے جاتے، پھر نظر بھی آ جاتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے کچھ ایسے روٹھے کہ اب مان ہی نہیں رہے۔
جگنو مکھی نہیں بلکہ بھونروں کی ایک قسم ہے، انہیں چمکدار کیڑا بھی کہا جاتا ہے، شمالی امریکا، برطانیہ، برازیل، کیوبا اور یورپ اس کے خاص مسکن ہیں۔
یہ انٹارکٹیکا کے علاوہ تقریباً ہر براعظم پر پائے جاتے ہیں اور اس کی اہم وجوہات میں انٹارکٹیکا کا انتہائی سرد موسم اور خوراک کی کمی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں ان کی 2 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، صرف آسٹریلیا میں اس کی 20 اقسام ہیں۔ یہ عام طور گرم علاقوں، دلدلی جگہوں اور جنگلات میں پائے جاتے ہیں، شہر کے پارکوں یا پھر پودوں کے قریب بھی نظر آ جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جگنو آلودگی ناپنے والا قدرت کا پیمانہ ہیں، یعنی جب ماحول صاف ہو تو یہ زیادہ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ننھے کیڑے ہمیں یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہمارا ماحول کتنا صاف ہے مگر یہ خود انسانوں کے کیے کا نشانہ بن گئے۔
دنیا بھر میں جگنوؤں کی تعداد میں کمی کی کئی وجوہات ہیں، اندھیرا جگنوؤں کو خوب بھاتا ہے، تیز روشنی ان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ موبائل فون ٹاورز، وائی فائی اور دیگر وائرلیس سگنلز جگنوؤں کی تعداد میں کمی کا سبب ہیں، برقی روشنیاں دیکھنے میں آنکھوں کو خوب بھاتی ہیں مگر ان چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی زندگی اور بقا میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
نر جگنو اپنی مادہ کو مختلف سگنلز بھیجتے ہیں، تیز روشنیوں کے باعث ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آلودگی بھی ان ننھے چمکتے کیڑوں کی زندگی مشکل بناتی ہے۔ مصنوعی روشنی کے علاوہ کیڑے مار ادویات کا استعمال بھی جگنوؤں کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ کیڑے مار دواؤں سے کینچوے ناپید ہوئے تو اس کے باعث جگنوؤں کی تعداد میں کمی ہوئی۔
جگنوؤں میں نر اور مادہ میں بھی فرق ہوتا ہے، کچھ اقسام میں مادہ کے پر نہیں ہوتے اور یہ رات کے وقت زمین پر رینگتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ نر جگنو عموماً اڑتے اور چمکتے ہیں، یہ پودوں کا رس یا شہد کھاتے ہیں جبکہ کچھ صرف پانی پر گزارا کرتے ہیں۔ بعض اقسام میں مادہ نر سے کہیں زیادہ بڑی بھی ہوتی ہے۔
جگنوؤں کی کئی اقسام کو شدید خطرات ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور برطانیہ کے وہ جگنو بھی شامل ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ روشن ہوتے ہیں اور پھر ایک ساتھ ہی روشنی دینا بند کر دیتے ہیں۔ بلو گوسٹ نامی جگنو بھی خطرے سے دوچار ہیں اور اس کی بڑی وجہ انہیں دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ہیں۔ ملائیشیا میں پام آئل کی کاشت کے لیے مینگرووز کے درختوں کی کٹائی سے بھی جگنو خطرے میں ہیں ۔
جگنوؤں کی پہچان ان کی روشنی ہے، اسی سے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں مگر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہر جگنو لازمی طور پر روشنی نہیں بکھیرتا۔
جگنو اپنی روشنی کا استعمال صرف ساتھی کو بلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی کرتے ہیں، کسی حملے کی صورت میں یہ کڑوے ذائقے والا خون کا قطرہ نکالتے ہیں، جسے “Reflex Bleeding” کہا جاتا ہے۔ اور حملہ آور مکڑی یا کوئی اور کیڑا اسے چکھنے کے بعد جگنو کو کھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ مادہ جگنو اپنی روشنی سے کچھ نر جگنوؤں کو بلا کر انہیں کھا بھی جاتی ہیں۔
جگنو روشنی کیسے پیدا کرتے ہیں، اسے بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے، جگنو کے جسم میں موجود ایک کیمیائی مادے اور آکسیجن کے ملاپ سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں حرارت پیدا نہیں ہوتی، اس لیے یہ روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے، صرف زندہ جگنو نہیں، کبھی کبھی ان کے انڈے بھی چھونے پر روشنی چھوڑتے ہیں۔ جگنو پیلی، سبز، نارنجی اور نیلی روشنی بکھیرتے ہیں۔
دیگر کیڑوں کی طرح جگنو کی پیدائش کے بھی 4 مرحلے ہوتے ہیں، سب سے پہلے مادہ جگنو گھاس یا نم مٹی میں چھوٹے انڈے دیتی ہے، کچھ ہفتوں بعد انڈے سے چھوٹا سا کیڑا نکلتا ہے، جسے لاروہ کہتے ہیں، پھر یہ پیوپا اپنے گرد ایک خول بناتا ہے اور اسی میں نیا جسم بننے لگتا ہے۔
کچھ دن بعد اس خول سے روشنی والا بالغ جگنو نکل آتا ہے، جس کے پر ہوتے ہیں اور یہ اڑ بھی سکتا ہے ۔ ایک انڈے سے جگنو بننے کا عمل عموماً 2 سے 3 ماہ لیتا ہے اور کبھی کبھی تو اسے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے مگر بالغ جگنو کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی، اکثر اوقات تو صرف چند ہفتے روشنی بکھیرنے کے بعد ہی مر جاتے ہیں۔
شاعری میں بھی جگنوؤں کا ذکر ملتا ہے، شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی جگنو کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔
علامہ اقبال کی نظم جگنو کے چند اشعار
جگنو کي روشنی ہے کاشانہَ چمن ميں
يا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن ميں
آيا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
يا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن ميں
يا شب کی سلطنت ميں دن کا سفير آيا
غربت ميں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن ميں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے يا نماياں سورج کے پيرہن ميں
بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظم ہمدردی میں بھی ایک پیغام ہے۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
جگنو کے نام سے فلمیں اور ڈرامے بھی بنے، 1947 کی دلیپ کمار اور نور جہاں کی کلاسک فلم جگنو کے کیا کہنے۔ ہم ٹی وی کا ڈرامہ جگنو بھی دیکھنے والوں کی یادوں کو مہکاتا رہتا ہے۔ آپ نے علی ظفر کا برسوں پرانا گیت جگنوؤں سے بھر دے انچل بھی یقیناً سنا ہو گا۔
جگنو ہے تو ایک چھوٹا سا کیڑا، مگر یہ ہمیں ایک نہیں کئی سبق سکھاتا ہے، جیسے اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی اور ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کی تعداد میں جگنوؤں کی کرتے ہیں بھی جگنو جاتے ہیں ہیں اور جاتا ہے جگنو کے جگنو کو کے لیے
پڑھیں:
مریم نواز بہت بدل گئی ہیں
مریم نواز کو جاننے کے کئی طریقے ہیں۔ آپ ان کو نواز شریف کی بیٹی کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ یہ اس خاندان کی فرد ہیں جہاں والد وزیر اعظم، چچا وزیر اعلیٰ اکثر دیکھے گئے۔ پورے ملک کی سیاسی قیادت ان کے گھر عموماً آتی رہی۔ دنیا بھر کےسربراہان مملکت کے ان کے خاندان سے رابطے رہے۔ کتنے ہی وزرا اعظم خود چل کر ان کے گھر آئے۔ کتنے غیر ملکی وفود سے بچپن میں ہی ان کی ملاقات رہی۔ کتنی ہی سیاسی تحریکوں نے ان کے گھر سے جنم لیا۔ کتنے ہی سیاسی مدوجزر انہوں نے بچپن میں دیکھ لیے ۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے آپ مریم نواز کو ان کے دادا کے حوالے سے جانیں جو پاکستان کے سب سے بڑے انڈسٹریلسٹ تھے۔ جن کے کاروبار کا شمار نہیں تھا۔ اتفاق ایسا نام تھا جس پر سب متفق تھے۔ لاہور اتفاق فیکٹری کی سرحد سے شروع ہوتا تھا۔ اس مریم نواز کا بچپن ناز و نعم میں گزرا تھا۔ یہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئیں۔ ان کی زندگی میں عسرت و غربت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ ان کی زندگی میں پیسے کی فروانی تھی۔ دولت کی ریل پیل تھی۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ انہیں ان کے بچپن سے پہچانیں۔ مریم نواز کبھی سیاست میں آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے والد، والدہ، چچا اور کزن نے جو مشکلات سہیں اس کے بعد ان کی کوئی دلچسپی اس مضمون میں نہیں رہ گئی تھی۔ وہ ایک عام خاتون کی طرح زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ گھر بار، بچے سنبھالنا چاہتی تھیں۔ سیاست میں ان کی دلچسپی اپنے والد تک تھی، اور یہ انکے لیے کافی تھا ۔ والد ہی ان کی سوچ کا محور تھے
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کو جیل میں ملتے۔ جہاں سے مریم نواز کی زندگی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ جیل کے دنوں میں اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہو تو آپ جان سکتے ہیں کہ اس وقت انہیں جیل کی تکالیف پریشان نہیں کرتی تھیں۔ وہ بڑے استقلال کے ساتھ ظلم و ستم کا مقابلہ کرتی تھیں۔ عمران خان کے دور میں ان کے باتھ روم میں کیمرے لگوا دیے گئے۔ ان سے جانماز چھین لی گئی۔ ان کے کمرے میں رات کو 12 بجے کے قریب جب وہ شب خوابی کے لباس میں ہوتیں تو نیب کے 15-15 اہلکار داخل ہو کر موبائل پر وڈیوز بنانے لگتے۔ اور سب سے زیادہ اذیت ناک بات کہ جب مریم نواز کی والدہ بیگم کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں۔ ان سے بات نہیں کروائی گئی۔ آنے والے سانحے کی سب کو خبر تھی۔ اس موقع پر جیل سپرٹینڈینٹ سے کس طرح ایک بیٹی نے درخوست کی ہو گی یہ ہر بیٹی والا سمجھ سکتا ہے۔ لیکن بات نہیں کروائی گئی۔ ماں دنیا سے چلی گئی قلق دل میں رہ گیا۔ آخری مرتبہ آواز سننے کی حسرت عمر بھر کے لیے رہ گئی۔
مریم نواز کو آپ جاننا چاہیں تو انہیں اس دور کے حوالے سے جان سکتے ہیں جب عمران خان اور ان کے حواریوں نے ان پر اور ان کے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ جب نواز شریف جیل میں تھے اور پارٹی خاموش ہو کر کسی سانحے کا انتطار کر رہی تھی۔ کوٹ لکھپت جیل کے باہر 200 لوگ بھی احتجاج کے لیے جمع نہیں ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کے پلیٹلٹس کم ہونے کی خبریں ٹی وی اسکرینوں پر چل رہی تھیں۔ کوئی عمران خان کے ظلم کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ اس وقت ہم نے مریم نواز کا ایک اور روپ دیکھا۔ وہ لڑکی جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی، کسی شیرنی کی طرح اپنے باپ کی زندگی کے لیے ٹوئٹر پر دھاڑتی تھی۔ جو کچھ بس میں تھا اس زمانے میں مریم نواز نے کیا۔ نواز شریف کی اس وقت جان بچانے کا سہرا صرف اور صرف مریم نواز کو جاتا ہے۔ اس وقت نہ وہ نازوں میں پلی لڑکی رہیں نہ سیاست سے منفور رہیں۔ ان کی زندگی کا مطمحِ نظر صرف نواز شریف ہو گئے تھے۔ اسے نہ گرفتاری کا ڈر تھا نہ دورِ عمران کے جبر کا خوف۔ انہوں نے اس زمانے میں تن تنہا اپنے باپ کی زندگی کی جنگ لڑی۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ان کو سیاست دان کی حیثیت سے جانیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اب مریم نواز کے سوا کچھ زیادہ نہیں بچا۔ ہر الیکشن کمپین ان کو کرنا پڑتی ہے۔ ہر جرأت مندانہ اقدام کے لیے نگاہیں ان پر پڑتی ہیں۔ جب مریم نواز وزیر اعلیٰ بنیں تو کچھ خدشات لوگ کے ذہنوں میں تھے۔ لوگوں کو لگتا تھا ناز و نعم میں پلی یہ خاتون اپوزیشن میں تو احتجاج کر سکتی ہے مگر صوبہ نہیں چلا سکتی۔ شروع میں اعتراضات بڑھے ۔ لوگوں نے ان کے قیمتی ملبوسات میچنگ پرس اور جوتوں پر جملے کسے۔ جس طرح وہ عوام میں گھل مل جانے سے اجتناب کرتی تھیں اس پر باتیں کیں۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ مریم نواز بدل گی۔
گزشتہ چند دنوں سے مریم نواز وہ نہیں رہیں جو وہ پہلے تھیں۔ نہ اب وہ زرق برق لباس زیب تن کرتی ہیں، نہ عوام سے دور رہتی ہیں نہ منتخب نمائندوں سے خائف رہتی ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں مریم نواز نے وہ کر دکھایا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اب لوگ اس مریم نواز کو جانتے ہیں جو مصیبت زدگان کی مدد کو ہر لمحہ تیار رہتی ہے۔ اب لوگ انہیں اس مریم نواز کے حوالےسے جانتے ہیں جو مشکل میں پھنسے لوگوں کو گلے لگاتی ہے۔ اب ان کی پہچان ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہے۔ ننگ دھڑنگ بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے۔ اب نہ ان کا لباس زرق برق ہے نہ اپنی امارت کا کوئی احساس۔ سر پر معمولی سی چادر لیے، بنا کسی پروٹوکول کے عوام کی خدمت میں جتی مریم نواز اب بدل گئی ہیں۔ اب اس کو پرٹوکول کی کوئی پرواْ نہیں، اسے صرف پنجاب کے عوام کی فکر ہے۔ مریم نواز اپنی ساری ٹیم کو مصیبت زدگان کی خدمت پر مامور رکھتی ہے۔ اب وہ پورے پنجاب میں ہر جگہ لوگوں کی خدمت کرنے کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ مریم نواز نہیں ہے جس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی۔ جس کے منہ میں سونے کا چمچہ اور تن پر زرق برق لباس تھا۔ یہ وہ مریم نواز ہے جو عوام کی خادم ہے۔ پنجاب کی محافظ ہے۔ اب اس کا ایک ایسا نیا روپ سامنے آیا ہے جس میں وہ نواز شریف کی بیٹی تو ہے مگر بیگم کلثوم نواز کے سب وصف لے کر عوام کی خدمت کررہی ہے۔ اب وہ اپنی ذات، خاندان، عیش و عشرت سے ماورا ہو گئی ہے۔ یقین مانیے مریم نواز اب بہت بدل گئی ہے۔ مریم نواز چند دنوں میں ہی بہت بدل گئی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔