Jasarat News:
2025-11-10@22:31:36 GMT

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے بدھ 24 ستمبر کو منعقدہ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے متفقہ اعلامیہ میں قرار دیا ہے کہ مخصوص شرائط کے تحت انسانی دودھ ذخیرہ کرنے والے ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں مختلف النوع ممکنہ مفاسد سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ایسے اداروں کے قیام کی جانب پیش رفت سے قبل لازمی قانون سازی عمل میں لائی جائے اور انسانی دودھ کے حوالے سے ایسی قانون سازی میں اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی شامل کیا جائے۔ کونسل نے اپنے اس اہم اجلاس میں حکومت کی جانب سے پہلے سے موجود قانون دیت میں ترمیم کے بل پر بھی غور کیا اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کونسل نے رائے دی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان شریعت کی روشنی میں قانون دیت کے ترمیمی بل سے اتفاق نہیں کرتے، دیت کی سونا چاندی اور اونٹ سے متعلق شرعی مقداریں قانون میں شامل رہنی چاہئیں۔  بل میں چاندی کو حذف اور سونے کی غیر شرعی مقدار کو معیار بنایا گیا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اراکین کونسل جسٹس (ر) ظفر اقبال چودھری، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، صاحبزادہ پیر خالد سلطان قادری، جلال الدین ایڈووکیٹ، حافظ طاہر محمود اشرفی، ملک اللہ بخش کلیار، جسٹس (ر) الطاف ابراہیم، مولانا پیر شمس الرحمن، محمد یوسف اعوان، سید افتخار حسین نقوی، ڈاکٹر مفتی انتخاب احمد، رانا شفیق خان پسروری، صاحبزادہ سید سعید الحسن، صاحبزادہ حافظ محمد امجد، فریدہ رحیم اور بیرسٹر سید عتیق الرحمن شاہ بخاری نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا کہ شوگر کے مریضوں کے لیے حلال اجزاء والی انسولین دستیاب ہے اس لیے حلال اجزاء والی انسولین کی دستیابی پر خنزیر کے اجزاء پر مشتمل انسولین سے پرہیز کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 11 ستمبر 2025ء کے عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر مدخولہ عورت کو طلاق کی صورت میں عدت اور نفقہ لازم قرار دینا قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بینک سے رقم نکالنے اور منتقل کرنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو غیر شرعی قرار دینے کے بعد وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اس اجلاس کے حوالے سے یہ تاثر سامنے آیا کہ کونسل نے ود ہولڈنگ ٹیکس بارے حتمی رائے قائم کر لی ہے جب کہ حقیقتاً چند اراکین نے اس پر ابتدائی بحث کی۔ اراکین نے کہا کہ اس پر اگلے اجلاس میں سیر حاصل بحث کی جائے اور متعلقہ ماہرین سے رائے لی جائے، زیر بحث مسئلے پر کونسل کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزارت مذہبی امور کے استفسار پر اتفاق ہوا کہ ایک رنگ ٹون تیار کی جائے جس میں شہریوں کو ہدایت دی جائے کہ ماہ ربیع الاول میں مقدس کلمات و تحریروں والے بینرز، جھنڈوں اور جھنڈیوں کا ادب کریں اور ان کی بے حرمتی سے بچیں۔ توہین مقدسات کے پس منظر میں طے پایا کہ شہادت کے لیے رکھے گئے وہ نسخے قرآن کریم جن پر غلاظت کے اجزاء لگے ہوں، شہادت ریکارڈ ہونے کے فوراً بعد پاک کیے جائیں اور اس مقصد کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ کونسل نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مراسلہ بابت انجینئر محمد علی مرزا پر عائد ایف آئی آر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ شرعی اصول و ضوابط کی وضاحت اور تفصیلی غور و فکر کے بعد کونسل نے ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن و سنت میں بھی بعض کفریہ الفاظ نقل ہوئے ہیں مگر یہ بات ادھوری پیش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ان تمام مقامات کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں ان الفاظ کو بطور رد، انکار اور سخت تنبیہ کے ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ کسی تائید کے طور پر۔ شرعی اصول یہ ہے کہ کفر کے الفاظ صرف اس وقت نقل کیے جا سکتے ہیں جب ان کا مقصد کوئی جائز دینی ضرورت ہو، مثلاً شہادت، باطل کی تردید، تعلیم یا تنبیہ وغیرہ۔ بلا ضرورت ایسے کلمات دہرانا ناجائز اور بعض صورتوں میں سخت گناہ ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کے کئی بیانات میں ایسے جملے موجود ہیں جو محض نقل کفر پر مشتمل ہیں مگر کسی شرعی مقصد کے بغیر کہے گئے ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا کا ایک بیان قرآن کی توہین اور معنوی تحریف کے زمرے میں بھی آتا ہے لہٰذا اس پر عائد دفعات میں توہین قرآن کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔ محمد علی مرزا کا بیان فساد فی الارض کو پھیلانے کا باعث ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل وطن عزیز کا ایک اہم آئینی ادارہ ہے۔ پاکستان کا آئین اس حوالے سے بہت واضح ہے کہ یہ مملکت ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے جس میں قانون سازی کا حتمی اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور مملکت میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی نافذ ہو سکتا ہے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کو وجود میں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کونسل ملک کے موجودہ اور آئندہ بنائے جانے والے قوانین کا قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ لے کر ان کے بارے میں رائے دے کہ زیر نظر قانون یا اس کی کوئی شق قرآنی تعلیمات یا سنت رسول کریمؐ کے منافی تو نہیں، چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے گزشتہ طویل عرصہ میں ملک کے ہزاروں قوانین کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے کر ان کے شریعت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اپنی ٹھوس اور مدلل رائے پر مشتمل سفارشات مرتب کی ہیں اور متعلقہ وزارتوں کو بھی ارسال کی ہیں جو ان وزارتوں، محکموں اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی الماریوں کی فائلوں میں بند پڑی ہیں اور ان میں سے اکثر پر عمل درآمد کی نوبت تاحال نہیں آ سکی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کونسل کی آرا کی حیثیت محض سفارشات کی ہے جن کی روشنی میں قانون سازی متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے مگر یہ ادارے اکثر و بیش تر جان بوجھ کر یا مختلف مجبوریوں کو جواز بنا کر اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آج بھی بہت سے قوانین قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی رائج ہیں اور ہماری عدالتیں آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ان غیر اسلامی قوانین کے تابع فیصلے دے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی آرا کو محض سفارشات قرار دے کر انہیں مختلف اداروں کی بے عملی اور صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے آئین میں ضروری ترامیم کے ذریعے ان سفارشات پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی محنت رائیگاں جانے کے بجائے نتیجہ خیز ہو سکے اور ملکی قوانین فی الواقع قرآن و سنت کے تابع کیے جا سکیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مختلف اجلاسوں کی روداد کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ کونسل کی سفارشات کی بھاری اکثریت متفقہ ہے جیسا کہ 24 ستمبر کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہ متفقہ ہے جو بعض سیکولر اور لادین عناصر کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اعتراض کا ٹھوس اور مسکت جواب ہے کہ بہت سے فرقے ہیں، ملک میں کس فرقے کی شریعت نافذ کی جائے مگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ اعتراض ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور الحمدللہ تمام فرقے تمام بنیادی امور میں متحد و متفق ہیں جس کا واضح ثبوت اسلامی نظریاتی کونسل میں شامل مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اکثر و بیش تر معاملات میں یک آواز اور متفق ہونا ہے۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی نظریاتی کونسل کے محمد علی مرزا کی روشنی میں کونسل کی اجلاس کے کہ کونسل کی جائے کے لیے کہا کہ کیے جا کے بعد

پڑھیں:

پارلیمانی کمیٹی کا 27 ویں ترمیم پر اجلاس، مزید 3 ترامیم پیش، آئینی عدالتوں کے قیام کی منظوری

ویب ڈیسک: پارلیمان کی قانون و انصاف کمیٹیوں کا 27 ویں آئینی ترمیم پر مشترکہ اجلاس جاری ہے جس میں حکومتی اتحاد نے مزید 3 ترامیم پیش کر دی ہیں جبکہ آئینی عدالتوں کے قیام کی شق منظور کر لی گئی۔

 سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس فاروق ایچ نائیک اور محمود بشیر ورک کر رہے ہیں، دوپہر کے وقفہ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر وزیر قانون نے وزیراعظم کے فوجداری استثنیٰ والی ترمیم واپس لے لی، یہ کمیٹی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کی شقوں کا جائزہ لینے کے بعد شق وار منظوری دے گی۔

بجلی کے بلوں کی ادائیگی؛ صارفین کو بڑا ریلیف مل گیا

 اجلاس میں سینیٹر طاہر خلیل سندھو، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو، علی حیدر گیلانی، سائرہ افضل تارڑ، بلال اظہر کیانی، سید نوید قمر اور ابرار شاہ کمیٹی اجلاس میں شریک ہیں، اس کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف راجا نعیم اکبر اور دیگر افسران بھی اجلاس میں موجود ہیں۔

 حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے تین مزید ترامیم پیش کی گئیں جبکہ اے این پی، بی این پی اور ایم کیو ایم نے اپنی ترامیم بھی پیش کر دیں۔

ماس ٹرانزٹ سسٹم کا ٹی کیش کارڈ مہنگا ہوگیا

 ذرائع نے بتایا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی عدالتوں کے قیام کی شق کی منظوری دیدی، زیر التوا مقدمات کے فیصلے کی مدت چھ ماہ سے بڑھا کرایک سال کرنے کی ترمیم منظور کی گئی، ایک سال تک مقدمہ کی پیروی نہ ہونے پر اسے نمٹا ہوا تصور کیا جائے گا۔

 ذرائع نے بتایا کہ اے این پی نے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی ترمیم کمیٹی میں پیش کی جس کے مطابق خیبرپختونخوا سے نام خیبر ہٹا کر پختونخوا رکھا جائے، اے این پی نے مؤقف اپنایا کہ خیبر ضلع ہے، دیگر صوبوں میں نام کے ساتھ ضلع کا نام نہیں لکھا جاتا۔

آئین میں27ویں ترمیم کیا ہے؛مکمل تفصیل سامنےآگئی

 ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمائندوں کو فنڈ سے متعلق ترمیم پر اتفاق کیا گیا، آرٹیکل 243اور آرٹیکل 200 سے متعلق مشاورت جاری ہے، بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

 دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، پی ٹی آئی، جے یو آئی، پی کے میپ اور ایم ڈبلیو ایم کے اراکین اجلاس میں شریک نہیں ہیں۔

 وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ وزیر اعظم نے صبح مجھے اور اٹارنی جنرل کو بلایا تھا، وزیراعظم نے کہا تھا وہ استثنی نہیں چاہتے ، جن دیگر عہدوں کو استثنیٰ دیا جا رہا ہے ان کا کام ایگزیکٹو نوعیت کا نہیں، وزیراعظم کا کام ایگزیکٹو نوعیت کا ہے۔

موٹر سائیکل سوار کا 21 لاکھ روپے کا چالان، ایک قومے(،) نے کیا سے کیا کردیا

 انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کی تجاویز پر وفقہ کے بعد غور ہوگا، امید ہے آج شام تک کمیٹی اپنا کام مکمل کر لے گی، جے یو آئی کے اراکین کل کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے تھے اور کمیٹی کو پارٹی پالیسی سے آگاہ کیا تھا۔

 وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرے خیال میں پارلیمانی جماعتوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہئے۔

 سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ جن تجاویز پر کل بحث نہیں ہوئی ان پر آج غورہوگا، ججز کی ٹرانسفر، آرٹیکل 243جوجوائنٹ کمانڈپر ہے اورکچھ شقوں پر میٹنگ ہوگی، تمام شقوں پر رائے لی جائے گی اورپھر کچھ فائنل ہوگا۔

ون ڈے سیریز میں بڑی فتح، وزیراعظم اور محسن نقوی کی قومی ٹیم کو مبارکباد

 فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پوری امید ہے آج اس بحث کو ہم مکمل کرلیں گے، ہر جماعت کو اپنی تجاویزدینے کا پورا حق ہے، ارکان کی اکثریت کیا فیصلہ کرتی ہے آج پتہ چل جائے گا۔

 انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن کی تمام تجاویز کودیکھا جائے گا پھر فیصلہ ہوگا، اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ ہوگا پھر یہ ہاؤس میں بھیجا جائے گا، کوشش ہوگی ہم اس کو شام 5بجے تک مکمل کرلیں۔

 سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر 3 بجے طلب کیا گیا ہے، جس کا ایک نکاتی ایجنڈا 27ویں ترمیم بل پر غور کرنا ہے۔

 تحریکِ انصاف کے پارلیمانی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی میں اس بل پر بحث کرنا نامناسب ہے، انہوں نے حکومت اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ ترمیمات کو جلد بازی میں منظور کرانے کے درپے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر ضرب لگاتی ہیں، عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں، اور 1973 کے آئین کے ذریعے بڑی احتیاط سے قائم کیے گئے اختیارات کے نازک توازن کو مجروح کرتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اسٹیل کی نجکاری ملکی معیشت کیلیے نقصان دہ ہے ‘ منعم ظفر خان
  • 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ اجلاس شروع
  • سینیٹ کا اجلاس آج طلب، 27 ویں آئینی ترمیم منظوری کے لیے پیش کی جائے گی
  • سینیٹ کا اجلاس آج، 27ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا جائے گا
  • 27ویں ترمیم نظام انصاف پر شب خون مارنے کے مترادف: حافظ نعیم
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کی رپورٹ کل پیش کی جائے گی، ایجنڈا
  • سینیٹ اجلاس 3 بجے طلب،27ویں ترمیم بل پر غور یک نکاتی ایجنڈامنظور
  • پارلیمانی کمیٹی کا 27 ویں ترمیم پر اجلاس، مزید 3 ترامیم پیش، آئینی عدالتوں کے قیام کی منظوری
  • وزیر قانون نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا
  • دیگر صوبوں کو ترقی، بلوچستان کو آپریشن دینا زیادتی ہے، جماعت اسلامی بلوچستان