صمود فلوٹیلا: ظلم کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جب ظلم حد سے گزر جائے اور مظلوموں کی آہیں عرش کو چھو لیں تو قدرت کے چراغ جل اٹھتے ہیں، اور ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں جو عقل کو محال لگتے ہوں۔ کبھی ابابیل پتھروں سے لشکر ِ فیل کو روند دیتے ہیں، کبھی عصائے کلیم سمندر کو راستہ بنا دیتا ہے اور کبھی بدر کے تین سو تیرہ جانباز ہزاروں کے غرور کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ یہ سب نشانیاں پکارتی ہیں کہ ربّ کی تدبیر و نصرت کے سامنے محلات و سلطنتیں ریت کے گھروندوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ آج بھی ایک ایسا ہی منظر دنیا کے سامنے ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے سارے لاؤ لشکر، تکبر، غرور اور وقت کے جدید ترین اسلحے کے ساتھ نہتے اور معصوم انسانوں پر حملہ آور ہے اور دوسری جانب بڑے بڑے اسلامی ممالک معصوم بچوں کے قتل اور ان کی نسل کْشی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے ایک قافلہ ایسے لوگوں کا اْٹھا جن کی زبانیں جدا، اْن کے عقائد و افکار کے دھارے مختلف، اْن کے رنگ اور نسل الگ الگ ہیں، مگر اْن سب کا مشن ایک ہے کہ غزہ کی مظلوم انسانیت کو غاصب، ظالم و ناجائز ریاست کے محاصرے سے نجات دلانا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حقیقت خواب سے ہم کلام ہوتی ہے، جہاں کمزور ہاتھ مگر مضبوط دل دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اصل طاقت توپ اور تفنگ میں نہیں بلکہ حوصلے، غیرت اور عزم میں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ انسانیت کا مان رکھنے والے سمندر کے ان مسافروں کے پاس نہ اسلحہ ہے نہ
بارود، نہ ہی اْنہیں کسی بحری فوج کا تحفظ میسر ہے اور نہ ہی فضائی طاقت کا سہارا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر طوفان اٹھے تو اْن کے پاس سمندر کی بے رحم موجوں سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں۔ پھر بھی اْن کے دلوں کے حوصلے سمندروں سے زیادہ گہرے ہیں، اْن کے ارادے چٹانوں سے زیادہ سخت ہیں، اْن کے عزائم پہاڑوں سے زیادہ بلند ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اْن کی غیرت و جرأت دنیا بھر کے ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی خوابیدہ غیرت سے کئی گنا زیادہ جاگتی ہوئی ہے۔ ’’دنیا کو ہے پھر معرکۂ رْوح و بدن پیش‘‘ گویا کہ آج دنیا کو ایک بار پھر معرکۂ حق و باطل درپیش ہے۔ آج کا فرعون پھر انبیاء کی سرزمین پر معصوم بچوں کو ذبح کر رہا ہے، آج کا شدّاد پھر خدائی کے زعم میں انسانیت کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ ظلم و جبر کی اس سیاہ رات میں گلوبل صمود فلوٹیلا روشنی کا چراغ اور امید کی کرن بن کر اْبھرا ہے۔ یہ محض چند کشتیوں کا قافلہ نہیں بلکہ انسانیت کی لاج کا پرچم بردار ہے؛ ایک ایسا قافلہ جس میں دنیا کے چوالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد ڈاکٹرز، صحافی، فنکار، سماجی کارکن، پارلیمانی نمائندے اور عام شہری شریک ہیں۔
صمود فلوٹیلا دراصل کفارہ ہے اْس جرم کا جو دنیا نے غزہ کے بدترین محاصرے پر خاموش رہ کر کیا۔ یہ دم توڑتی انسانیت کے سینے میں اُترتی تازہ سانس ہے، ظلم کے اندھیروں میں جلتا ہوا چراغ ہے، اور غزہ کے مظلوم شہریوں کے لیے پیغامِ اْمید اور پیغامِ حیات ہے۔ یہ قافلہ دنیا بھر کے اْن مردہ ضمیروں کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے جو اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں مگر بچوں کی چیخیں، عورتوں کی سسکیاں اور بوڑھوں کی آہیں بھی ان کی مجرمانہ خاموشی کو توڑنے میں ناکام رہیں۔ یہ دراصل وہ دستک ہے جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہو رہی ہے، تاکہ کل کا مورخ جب غزہ میں ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم رقم کرے تو کم از کم یہ نہ لکھ سکے کہ دنیا پوری کی پوری اجتماعی مردہ ضمیر مخلوق بن چکی تھی۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھی ہوئی محبت بھری دھڑکنوں اور انسانیت سے لبریز دلوں کا یہ حسین کارواں، اٹلی کے ساحلِ سسِلی سے سمندر کی لہروں کے سنگ عزم و حوصلے کے ترانے، فلسطین کو آزاد اور غزہ کا محاصرہ توڑنے کے پر عزم نعرے لگاتا ہوا نکل پڑا ہے اور مظلوموں کی پکار کا جواب بن کر غزہ کی سمت بڑھ رہا ہے، تاکہ محاصرے کے سیاہ حصار کو توڑ ڈالے اور ظلم کی زنجیروں کو بہادری کی ضرب سے ریزہ ریزہ کر دے۔
پاکستان کی نمائندگی بھی اس میں شامل ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان، آزاد کشمیر سے مولانا عبداللہ شاہ شاکر سمیت کئی سماجی اور صحافتی شخصیات شریک ہیں۔ یورپ و افریقا کی بڑی سیاسی و سماجی ہستیاں اس قافلے کا حصہ بنی ہیں۔ سابق میئر بارسلونا ادا کولاو، ماحولیات کی عالمی کارکن گریٹا تھنبرگ، جنوبی افریقا کے رہنما اور نیلسن مینڈیلا کے پوتے مندلا مینڈیلا، پرتگال کی سیاست دان مارِیانا مورٹاگوا، برطانیہ کی صحافی یو آن رڈلے، فرانس، آئرلینڈ، ترکی اور لاطینی امریکا کے نمائندے۔ یہ سب مختلف زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں لیکن ایک ہی پیغام پر متحد ہیں۔ انسانیت کو بچانا ہے، ظلم کو توڑنا ہے۔
اس فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کا اندیشہ منڈلا رہا ہے اگر اسرائیل کی جانب سے کوئی شیطانی وار ہوا تو یہ محض چند کشتیوں کا واقعہ نہیں رہے گا بلکہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر کی اجتماعی موت ہو گی۔ اسرائیل کی شیطانی فطرت سے آگاہ لوگ پہلے ہی منصوبہ بندی کرچکے ہیں جس میں سرفہرست بائیکاٹ کی وارننگ ہے۔ ان میں یورپ بھر کی بندرگاہوں کی مزدور یونینیں نمایاں ہیں۔ مزدور راہنما واشگاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ اگر کارواں کو خطرہ پہنچا تو اسرائیلی کارگو اور تجارتی راستے بند ہو جائیں گے، دنیا کے تجارتی نقشے لرز اٹھیں گے۔ پھر سوال خود بول اٹھتا ہے: جب دنیا کی محنت کش قومیں انصاف کی زبان بول رہی ہیں، تو وہ کون سی طاقت ہے جو اب بھی خاموش رہ سکتی ہے؟ اب فلسطین صرف مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے عالمِ اسلام اور انسانیت کا امتحان ہے۔ عرب اقوام، اسلامی ریاستیں اور خصوصاً وہ ملک جو حالیہ دفاعی معاہدوں میں جڑے ہیں، کیا وہ اس موقع پر صرف زبانی احتجاج تک محدود رہیں گے؟ یا پھر اتنا حوصلہ دکھائیں گے کہ ظلم کے خلاف عملی اور موثر قدم اٹھائیں؟
مسلم عوام کے دل سے یہ فریاد اُٹھ رہی ہے کہ اگر دنیا کے چوالیس ملکوں کے نہتے مسافر، بغیر اسلحے کے، چھوٹی کشتیوں پر طوفانی سمندروں کا سینہ چیرنے نکل سکتے ہیں، تو پھر ستاون اسلامی سلطنتوں کے فولادی بحری بیڑے آخر کیوں ساحلوں سے بندھے سوئے پڑے ہیں؟ کیا یہ خاموشی بزدلی کی نہیں؟ کیا یہ تماش بینی تاریخ کے ماتھے پر وہ داغ نہیں جو کبھی مٹ نہ سکے گا؟ کیا یہ بے حسی وہ غلاظت نہیں جو صدیوں تک آئندہ نسلوں کو تعفن زدہ کرتی رہے گی؟
اگر صمود فلوٹیلا کے اْن باہمت اور پرعزم انسانوں پر خدانخواستہ کوئی آفت ٹوٹ پڑی تو پھر مسلم ممالک کے عوام کا ردعمل کیا ہوگا؟ وہ عوام جن کے دل پہلے ہی غم و غصے کے شعلوں سے دہک رہے ہیں اور جن کی آنکھیں اپنے حکمرانوں کی بے حسی پر خون کے آنسو رو رہی ہیں۔
صمود فلوٹیلا کی جرأت سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب دل میں ہمت اور نیت میں اخلاص ہو تو محاصرے کی آہنی دیواریں بھی مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ یہ قافلہ ظلم کی گھنی رات میں جگمگاتے چراغ کی مانند ہے، اہلِ غزہ کے زخموں پر مرہم اور دنیا کے ہر مظلوم کے لیے اْمید و حیات کا پیغام ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صمود فلوٹیلا سے زیادہ دیتے ہیں دنیا کے کے لیے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-7
شاہنواز فاروقی
آپ کا کیا خیال ہے دنیا خواب سے بنتی ہے یا حقیقت سے؟ اس سے پہلے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں ہمارا ایک شعر سن لیجیے۔ عرض کیا ہے۔
دنیا یہ حقیقت سے بنی ہے نہ بنے گی
دوچار سہی خواب بھی ہوں گے اسے درکار
یہ شعر بتا رہا ہے کہ دنیا حقیقت سے نہیں خواب سے بنتی ہے۔ خواب کا ایک نام ’’مثالیہ‘‘ ہے۔ خواب کا ایک نام ’’Ideal‘‘ ہے۔ اس دنیا میں جتنی خوبصورتی ہے جتنی معنویت ہے جتنی گہرائی ہے وہ خواب کا حاصل ہے۔ مثالیے کا کرشمہ ہے، Ideal کا نتیجہ ہے ان باتوں سے یہاں ہمیں بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو یاد آگیا۔ انٹرویو کرنے والے نے اندرا گاندھی سے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے والد پنڈت جواہر لعل نہرو میں کیا فرق ہے۔ اندرا گاندھی نے اس کا خوبصورت مگر مختصر جواب دیا۔ انہوں نے کہا میرے والد ایک خواب دیکھنے والے تھے جبکہ میں ایک حقیقت پسند شخصیت ہوں۔ اندرا گاندھی کی بات بالکل درست تھی نہرو واقعتا خواب دیکھنے والے تھے۔ نہرو کا خواب یہ تھا کہ بھارت ایک بڑی صنعتی و معاشی طاقت بن کر اُبھرے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اقتدار کے 17 برسوں میں بھارت میں بھاری صنعتوں کا جال بچھادیا۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں بھارتی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی خواب پسندی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ ہندو ہونے کے باوجود اردو سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہندی کے بجائے اردو میں تقریر کرتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ ہندوئوں کی زبان ہندی ہے آپ ہندی میں تقریر کیا کریں۔ نہرو نے کچھ دن ایسا کیا مگر جلد ہی اس سلسلے کو ترک کرکے دوبارہ اردو کی طرف آگئے۔ وہ اردو کو ’’ہند اسلامی تہذیب‘‘ کے ملاپ کا حاصل سمجھتے تھے۔ بھارت کا آئین بنا تو آئینی ساز افراد اس کا مسودہ لے کر نہرو کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آئین کے مسودے میں بھارت کی قومی زبانوں کی ایک فہرست تھی۔ نہرو نے دیکھا اس فہرست میں اردو کا نام نہیں ہے۔ نہرو نے آئین سازوں سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ نہرو نے کہا میری مادری زبان اردو ہے۔ چنانچہ آئین سازوں کو بھارتی زبانوں میں اردو کو شامل کرنا پڑا۔ پاکستان میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پاکستان لے کر گیا۔ ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کو نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے۔ یہ نہرو تھے جنہوں نے ہندوستان اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر ’’نہرو لیاقت پیکٹ‘‘ پر دستخط کیے۔ بی جے پی کا کوئی اور رہنما ہوتا تو وہ ان تمام کاموں میں ایک کام بھی نہ کرتا۔ اس لیے کہ بی جے پی اور اس کی پشت پر موجود آر ایس ایس ’’خواب پرست‘‘ نہیں بلکہ ’’حقیقت پسند‘‘ ہیں۔
قائداعظم کی پوری سوانحی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی ایک خواب دیکھنے والے تھے۔ ایک زمانے میں ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ یا ایک قومی نظریہ ان کا خواب تھا، مگر جلد ہی ان پر اس خواب کی معنویت آشکار ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے دو قومی نظریے کا پرچم تھام لیا۔ انہوں نے جب پاکستان کا نعرہ فضا میں بلند کیا تو پاکستان اس وقت صرف ایک ’’خواب‘‘ تھا، صرف ایک امکان، صرف ایک مثالیہ، صرف ایک Ideal مگر قائداعظم نے اس خواب کے پودے کو اپنے خون دل سے سینچا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے تناور درخت بنادیا۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹیلنے ولپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہے۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ تبدیل کیا ہے اور ایسا تو شاید کوئی بھی نہیں ہوا جس نے قومی ریاست تخلیق کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر قائداعظم خواب دیکھنے والے نہ ہوتے تو وہ ان میں ایک کام بھی نہیں کرسکتے تھے۔
بلاشبہ اقبال بیسویں صدی کے ایک بڑے خواب دیکھنے والے تھے۔ اقبال کا مردِ مومن ایک خواب ہے۔ ایک مثالیہ ہے۔ ایک Ideal ہے۔ اقبال کا شاہین ایک خواب ہے۔ ایک مثالیہ ہے ایک Ideal ہے۔ اقبال کا تصور خودی ایک خواب ہے، ایک مثالیہ ہے، ایک Ideal ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال مومن کے بارے میں کیا فرما گئے ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبرت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریلِ امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
٭٭
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
٭٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
٭٭
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اقبال نے شاہین کے حوالے سے فرمایا ہے۔
ترا جوہر ہے نْوری، پاک ہے تْو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تْو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حْور
کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تْو!
٭٭
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
اقبال نے خودی کے سلسلے میں فرمایا ہے۔
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
٭٭
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
٭٭
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مولانا مودودی بھی بیسویں صدی کے بڑے خواب دیکھنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے ایک طرف اسلام کے عالمگیر غلبے کا خواب دیکھا۔ اور دوسری طرف انہوں نے باطل نظاموں کی شکست وریخت کا خواب دیکھا۔ انہوں نے فرمایا ایک وقت آئے گا کہ سوشلزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور ایک وقت آئے گا جب لبرل ازم لندن اور پیرس میں لرزہ براندام ہوگا۔ ان پیشگوئیوں میں سے مولانا کی ایک پیشگوئی صحیح ثابت ہوچکی ہے اور دوسری پیشگوئی بھی ان شاء اللہ آج نہیں تو کل صحیح ثابت ہوگی۔ مولانا سے پہلے علما کی عظیم اکثریت اس بات پر ایمان لے آئی تھی کہ بلاشبہ اسلام حق ہے مگر اب ریاست و سیاست اور معیشت اور آرٹ سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ مولانا نے اس کے مقابلے پر اس خیال کو عام کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، آج مسلم دنیا کے لوگوں کی عظیم اکثریت مولانا کے خیال پر ایمان لے آئی ہے اور اب ساری دنیا کے مسلمان اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات سمجھتے ہیں۔ مولانا کے غلبہ اسلام کے خواب نے مولانا سے 100 سے زائد کتب تحریر کروائیں ان سے قرآن کی تفسیر لکھوائی۔
بلاشبہ سوشلزم ایک باطل نظریہ تھا۔ مگر ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ بھی ایک خواب تھا جسے لینن نے روس میں حقیقت بنا کر دکھادیا۔ سوشلسٹ انقلاب کا خواب روس تک محدود نہ رہا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ بلاشبہ سوشلسٹ انقلاب کا خواب ایک مادی خواب تھا چنانچہ اس خواب نے آدھی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ بادشاہتیں منہدم ہوگئیں، جاگیرداری ماضی کا حصہ بن گئیں، کروڑوں لوگوں کے لیے تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں مفت ہوگئیں۔ سوشلسٹ ریاستوں میں کوئی بیروزگار تھا نہ بے گھر تھا، ان ریاستوں میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔ چنانچہ سوشلسٹ ریاستیں مطالعہ کرنے والے انسانوں کی ریاستیں تھیں۔ چین میں مائوزے تنگ نے چینی قوم کو سوشلسٹ انقلاب کا خواب دکھایا اور انقلاب برپا کردیا۔ انقلاب سے پہلے چینی قوم افیون کھانے والی قوم تھی۔ اس کی صنعتی ترقی صفر تھی۔ معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی مگر چین کی انقلابی قیادت نے گزشتہ 40 سال میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین عسکری اعتبار سے دنیا کی تین بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔
بدقسمتی سے آج ہماری دنیا میں خواب دیکھنے والوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ قائداعظم، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے پاکستان میں کُندذہن جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کا قبضہ ہے۔ اس پاکستان میں نہ اقبال کا مرد مومن موجود ہے نہ اقبال کے شاہین کی کوئی اہمیت ہے۔ جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک اور معاشرے پر ایسا جبر مسلط کیا ہوا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی خودی کی نشوونما ممکن ہی نہیں رہی۔ نہرو کے ہندوستان پر آر ایس ایس اور بی جے پی کا غلبہ ہے۔ اس غلبے نے 25 کروڑ مسلمانوں اور 40 کروڑ شوردوں اور دلتوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ مغربی دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا پر ٹرمپ کا قبضہ ہے جسے خواب کے معنی بھی معلوم نہیں ہیں۔ ساحر لدھیانوی یاد آگئے جنہوں نے کہا ہے۔
یہ دنیا ہے مُردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے