ڈونلڈ ٹرمپ کی مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی مخالفت، جرمنی کا خیر مقدم
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
برلن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 ستمبر2025ء) جرمنی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان تبصروں کا خیرمقدم کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے ساتھ الحاق کی اجازت نہیں دیں گے۔
(جاری ہے)
العربیہ اردو کے مطابق جرمن وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مغربی کنارے کا الحاق بلکہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی آبادیوں کی تعمیر بھی دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
امریکی مخالفت کے باوجود ایران اور روس کا 25 ارب ڈالر کا معاہدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران اور روس نے توانائی کے شعبے میں بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 25 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت جنوبی ایران کے صوبے ہرمزگان میں چار نئے ایٹمی ری ایکٹرز تعمیر کیے جائیں گے۔
عالمی ممیڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے میں ہے کہ ایٹمی تنصیبات شہر سیرک میں 500 ہیکٹر رقبے پر قائم کی جائیں گی اور مجموعی طور پر 5 گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھیں گی، منصوبے کی تعمیر روس کی سرکاری ایٹمی توانائی ایجنسی روس ایٹم (Rosatom) کے تعاون سے کی جائے گی۔
خیال رہےکہ فی الحال ایران کے پاس صرف ایک فعال ایٹمی بجلی گھر ہے جو جنوبی شہر بوشہر میں واقع ہے، یہ بھی روس ہی کی تعمیر کردہ ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت صرف 1 گیگاواٹ ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور گرمیوں کے دوران بجلی کی شدید قلت کے باعث ایران کئی برسوں سے نئے منصوبے شروع کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور تازہ معاہدہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
واضح رہےکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران پر دوبارہ عالمی پابندیاں عائد کرنے کے معاملے پر ووٹنگ کی تیاری کر رہی ہے، چین اور روس نے ایک قرارداد کی حمایت کی ہے جس کے ذریعے ان پابندیوں کے نفاذ میں کم از کم چھ ماہ کی تاخیر تجویز کی گئی ہے۔
ایران کے ساتھ توانائی اور عسکری شعبوں میں تعاون جاری رکھ کر روس نے ایک مرتبہ پھر امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے، ماسکو اس سے پہلے بھی ایران کے ایٹمی مراکز پر امریکی اور اسرائیلی حملوں پر سخت ردعمل ظاہر کر چکا ہے، جون میں بھی ان حملوں میں ایران کے کئی حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد روس نے کھل کر ایران کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب امریکا اور اسرائیل نے بارہا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کے سول نیوکلئیر منصوبے دراصل فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا مقصد صرف توانائی کی ضروریات پوری کرنا ہے۔