نیتن یاہو نے دوحہ میں اسرائیلی حملے پر قطر سے معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
اسرائیلی وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے، جہاں سے انہوں قطری وزیراعظم کو فون کرکے حملے پر معافی مانگی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے قطری دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملے پر قطر سے معافی مانگ لی۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے اسرائیلی میڈیا کے حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم محمد بن عبد الرحمان آل ثانی سے دوحہ میں اسرائیل کے فضائی حملے اور قطری سکیورٹی اہلکار کی ہلاکت پر معافی مانگی۔ اسرائیلی وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے، جہاں سے انہوں قطری وزیراعظم کو فون کرکے حملے پر معافی مانگی۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 9 ستمبر کو قطری دارالحکومت دوحہ پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے مرکزی دفتر پر فضائی حملہ کیا تھا، جس میں حماس رہنماء خلیل الحیہ کے بیٹے سمیت حماس کے 5 افراد اور ایک قطری سکیورٹی اہکار شہید ہوئے تھے۔ حماس کے مطابق اسرائیلی حملے میں حماس کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم تمام حماس رہنماء محفوظ رہے، حملے کے وقت حماس کے رہنماء امریکا کی جانب سے پیش کیے گئے غزہ جنگ بندی منصوبے پر غور کر رہے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
27 ویں ترمیم، 4 ہائی کورٹ ججز کے مستعفی ہونے کا امکان، اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی تفصیلات مانگ لیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ہائی کورٹ کے ججوں کو ان کی مرضی کے بغیر صوبوں کے درمیان ٹرانسفر کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دینے والی متنازع 27ویں ترمیم کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ہائی کورٹ کے کم از کم چار ججز استعفے پر غور کر رہے ہیں۔ موقر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان چار ججوں نے حال ہی میں اپنی ہائی کورٹ کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مراعات کی مفصل معلومات طلب کی ہیں۔ زبانی طلب کی گئی یہ معلومات پنشن کے فوائد اور جن تاریخوں پر یہ فوائد مل سکتے ہیں ان کی تفصیلات، اپنی باقی رہ جانے والی رخصت (ایکومولیٹڈ لیو بیلنس)، اور ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی موجودہ قیمت (اگر وہ یہ گاڑیاں خریدنا چاہیں تو) کے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق، معلوماتطلب کیے جانے کے اس واقعے سے یہ جوڈیشل حلقوں میں یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ یہ چار ججز (جو ستائیسویں ترمیم کے بعد ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے ٹرانسفر کیے جانے والے ججز کی فہرست میں شامل ہیں) سرگرمی کے ساتھ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں کہ نئے صوبوں یا علاقہ جات میں ٹرانسفر ہونے کی بجائے استعفےٰ دیدیا جائے۔ ان میں سے دو ججز ایسے ہیں جو آئندہ ماہ کسی بھی وقت پنشن کیلئے اہل ہو جائیں گے، جس سے ان کے فیصلے کے حوالے سے بے یقینی پائی جاتی ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے استعفے کا فیصلہ کیا تو اب تک یہ واضح نہیں کہ استعفے فوراً آئیں گے یا جب وہ پنشن اور مراعات کیلئے کوالیفائی کرلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ بھی واضح نہیں کہ یہ لوگ مل کر استعفیٰ دیں گے یا ایک ایک کرکے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت نے 27ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل ری شفلنگ (عدالتوں میں رد و بدل) کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ری شفلنگ ضروری ہے تاکہ ایسے ججوں کے رویے کے مسائل کو حل کیا جا سکے جو حکومت کے بقول عدلیہ کی بے توقیری کا سبب بنے ہیں۔ تاہم، دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ 27ویں ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور ایسی صورتحال میں آزاد خیال ججوں کیلئے عہدوں پر باقی رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی طور پر ججوں کے تقرر اور ٹرانسفر کا اختیار رکھتا ہے لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی موجودہ تشکیل کے ذریعے بظاہر حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
انصار عباسی