بھارتی جیل میں قید پاکستانی شہری واہگہ بارڈر کے راستے وطن واپس روانہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
پاکستان ہائی کمیشن کے مطابق بھارت میں قید ایک پاکستانی شہری راقیب بلال کو اٹاری-واہگہ بارڈر کے ذریعے وطن واپس روانہ کر دیا گیا۔
ہائی کمیشن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ حکومت کے وژن کے مطابق (ہائی کمیشن) بھارتی جیلوں میں موجود تمام پاکستانی قیدیوں کی واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ڈان ڈاٹ کام کو اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں قید ایک پاکستانی شہری کو رہا کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی میں اسلام آباد اور نئی دہلی کی وزارت خارجہ نے ایک دوسرے کے ملکوں میں موجود قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق حکومت پاکستان نے 246 بھارتی قیدیوں کی فہرست ہائی کمیشن اسلام آباد کے نمائندے کے حوالے کی تھی، جن میں 53 سویلین قیدی اور 193 ماہی گیر شامل تھے۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت نے 463 پاکستانی قیدیوں کی فہرست پاکستان کے ہائی کمیشن کے ساتھ شیئر کی، جن میں 382 سویلین قیدی اور 81 ماہی گیر شامل ہیں۔
مئی وزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا تھا کہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر 23 ہزار 456 پاکستانی قید ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد 12 ہزار 156 سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی ہے۔
ایوان زیریں میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت خارجہ نے قونصلر رسائی حاصل کرنے اور قیدیوں کی وطن واپسی کو آسان بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی تفصیلات پیش کی تھیں، تحریری جواب میں وزارت نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار 292 پاکستانی قید ہیں، یہ کسی بھی ملک میں قید پاکستانیوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستانی قید ہائی کمیشن قیدیوں کی
پڑھیں:
جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
ایران نے جی7 کے بیان کو گمراہ کن اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف قرار دے دیا۔
ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ اسمائیل بقائی نے کہا کہ جی7 ممالک کی جانب سے 3 یورپی ممالک اور امریکا کے اُس غیر قانونی اور بلاجواز اقدام کا خیرمقدم، جس کے تحت سلامتی کونسل کی منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی، بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی7 کا یہ موقف کسی طور بھی اس اقدام کی غیر قانونی اور بلاجواز نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیے: جی7 اجلاس میں صدر ٹرمپ کا غیر متوقع قدم، جنگ بندی کی کوشش یا نئی کشیدگی؟
یہ ردعمل جی7 ممالک کے اس بیان کے جواب میں سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ایران پراقوام متحدہ کی ماضی کی پابندیوں کو دوبارہ لاگو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ترجمان نے یاد دلایا کہ مذاکرات کے دوران اسرائیلی حکومت نے امریکا کی ہم آہنگی اور شراکت سے ایران پر فوجی جارحیت کی اور بعد ازاں امریکا نے براہِ راست ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اس پس منظر میں جی7 کا یہ دعویٰ کہ یورپی ممالک اور امریکا نے بارہا نیک نیتی سے سفارتی حل تجویز کیے، سراسر غلط ہے۔
اسمائیل بقائی نے زور دے کر کہا کہ دراصل امریکا ہی موجودہ بحران کا ذمہ دار ہے کیونکہ اُس نے 2018 میں یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے غیر قانونی انخلا کیا اور مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔
یہ بھی پڑھیے: ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال ہوگئیں
انہوں نے کہا کہ 3 یورپی ممالک نے واشنگٹن کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر جارحیت میں حمایت بھی کی۔
ایرانی ترجمان نے جی7 ممالک کی اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر خاموشی کو دوغلاپن قرار دیا اور کہا کہ ان کا عدم پھیلاؤ کے بارے میں مؤقف منافقت پر مبنی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قوانین اور امن و سلامتی کے حوالے سے ان 7 ممالک کے دوہرے اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث وہ کسی دوسرے ملک کو نصیحت کرنے کا اخلاقی اختیار نہیں رکھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ ایران پابندی جی7 ممالک نیوکلیئر طاقت