سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پنجاب اسمبلی کی ہائی پاور کمیٹی پر صوبائی حکومت کو اعتراض کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
حالیہ بدترین سیلاب کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے 30 ارکانِ اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی کا مقصد سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کا جائزہ، ریلیف سرگرمیوں میں اداروں کی رابطہ کاری اور آئندہ اس طرح کے نقصانات سے بچنے کے اقدامات اور قانون سازی کرنا ہے۔
کمیٹی 30 روز کے اندر پنجاب اسمبلی میں اپنی رپورٹ اور سفارشات کے ساتھ پیش کرے گی، اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے قائم کی گئی اسپیشل کمیٹی کے کنوینر سید علی حیدر گیلانی ہوں گے، صوبائی وزیر ایریگیشن محمد کاظم پیر زادہ اور دیگر ایم پی ایز پر مشتمل یہ کمیٹی سیلاب سے ہونے والی اموات، انفراسٹرکچر، فصلوں، مویشیوں اور گھروں کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: چین کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان پاکستان پہنچ گیا
کمیٹی متاثرین کی ریلیف اور بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے گی، کمیٹی کی جانب سے حفاظتی فلڈ بندوں کی تعمیر و مرمت، نکاسی آب اور سیلاب سے نمٹنے کے لیے طویل و قلیل مدتی ترجیحات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
مذکورہ کمیٹی آبی ذخائر، دریائی، قدرتی و ماحولیاتی ماہرین کی سفارشات بھی مرتب کرے گی اور اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کی کسی اور کمیٹی اور ممبر سے بھی تعاون حاصل کر سکے گی جبکہ وفاقی اور صوبائی محکموں سے بھی مدد حاصل کر سکتی ہے، تشکیل کردہ کمیٹی 30 روز کے اندر اپنی سفارشات مرتب کر کے اسمبلی کو پیش کرے گی۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سیلاب متاثرین کی تعداد کا تخمینہ لگائے گئی اور متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے کے ٹی او آرز بنائے گی۔ کس جگہ کیا کام ہونا ہے اس کی سفارشات بنا کر حکومت کو دیں گے، ہمارے ساتھ تمام ادارے مل کر اس پر کام کریں گے، ہم امداد تقسیم نہیں کریں گے ہمارا کام صرف سیلاب کے حوالے سے جائزہ رپورٹ تیار کر کے حکومت کو بھجوانا ہے۔
پنجاب حکومت کا اس پر کیا موقف ہے؟پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کو یہ ہائی پاور کمیٹی تشکیل نہیں دینی چاہیے تھی کیوں کہ پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہوا ہے۔ پنجاب حکومت نے سیلاب ریلیف پیکج کا تقریباً 5 سو ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں جانوروں، فصلوں اور گھروں کو پہنچنے والے نقصان اور امداد کا طریقہ کار بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا ملائیشیا کی جانب سے سیلاب متاثرین کی امداد پر اظہارِ تشکر
دوسرا، اس ریلیف پیکج میں ان اداروں کو شامل کیا گیا ہے جو سیلاب میں کام کر رہے تھے، ان میں اربن یونٹ، ریونیو، ایگرکلچر ڈیپارٹمنٹ، لائیو اسٹاک اور آرمی کے نمائندے شامل ہیں۔
ذرائع نے حیرت کا اظہار کیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کس طرح کی سفارشات تیار کرے گی جبکہ سب کام پنجاب حکومت اداروں کی مدد سے پہلے ہی کرچکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امداد بحالی پنجاب اسمبلی پنجاب حکومت سیلاب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بحالی پنجاب اسمبلی پنجاب حکومت سیلاب اسپیکر پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی کی سیلاب متاثرین پنجاب حکومت متاثرین کی کی جانب سے کرے گی کے لیے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی امداد کا تنازع، پیپلز پارٹی اورن لیگ ایک پیج پرآجائیں گے؟
ملک بھر میں حالیہ سیلابی تباہی نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے، اس بحران کے تناظر میں، وفاقی حکومت اور متعلقہ صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت اور شفاف امداد فراہم کریں، لیکن سب سے بڑا تنازع یہ ہے کہ امداد کا طریقۂ کار کون طے کرے۔
اسی طرح کون سے ادارے اس میں شامل ہوں؟ یہی معاملہ اب وفاقی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین کھلی کشیدگی کا باعث بن گیا ہے، آئے روز پارٹی کے سینیئر رہنما اس معاملے کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک دوسرے کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہونا چاہیے‘، رانا ثنا اللہ نے ایسا کیوں کہا؟
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا کہنا ہے کہ ہم نے گزشتہ روز اسحاق ڈار اور رانا ثنااللہ کے سامنے اپنے تحفظات رکھے تھے، ہم نے شروع دن سے کہا تھا کہ ہم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں گے اور کر بھی رہے ہیں لیکن ن لیگ کا رویہ ایک مسئلہ ہے۔
’ہم نے ابھی بھی اپنی حمایت جاری رکھی ہے اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پارٹی لیڈروں کی عزت کی جائے۔‘
ان کے مطابق اگر کوئی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا سے متعلق اعتراض کرتا ہے تو وہ ڈیٹا پیپلز پارٹی نے تیار نہیں کیا اور اس کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: سیلاب اور گندم پر سیاست کرنے والوں کو جواب ملے گا، مریم اورنگزیب کا پیپلزپارٹی پر وار
نوید قمر نے کہا کہ ہم امداد کے لیے حکومت کو اپنا مشورہ دے رہے ہیں، اگر حکومت کو ہماری تجویز قبول نہیں ہے تو وہ طریقے سے انکار کر سکتی ہے لیکن اس طرح میڈیا میں آ کر بیان بازی نہیں کی جا سکتی۔
’جب آپ کہتے ہیں کہ میرا پانی میری مرضی تو یہ پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔‘
نوید قمر نے بتایا کہ ان کی پارٹی کی اسحاق ڈار سے ملاقات میں مثبت جواب ملا ہے اور جب ن لیگ کا جواب آئے گا تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی مالی مدد کے نظام کا فیصلہ وفاق کرے گا صوبے نہ کودیں، بی آئی ایس پی چیئرپرسن روبینہ خالد
مسلم لیگ (ن) کے رہنما بیرسٹر عقیل احمد نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے اتحاد کے باعث حکومت میں آئی تھی۔ ہم اپنے اتحادیوں کی قدر کرتے ہیں۔
’اگر کسی بھی قسم کا کوئی تناؤ یا اختلاف پیدا ہوتا ہے تو جیسا کہ کل مذاکرات ہوئے، اسی طرح معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے اور ہم اس پر مشاورت کے بعد معاملے کو حل کر لیتے ہیں۔‘
بیرسٹر عقیل احمدکے مطابق ہر صوبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد خودمختار ہے، ہر صوبہ اپنی ترقی کے لیے کوئی بھی منصوبہ بنا سکتا ہے۔ وفاق یا صوبہ کسی دوسرے صوبے کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھی کام پر کتنا پیسہ خرچ کرے۔
مزید پڑھیں: ’وفاقی حکومت جواب دے‘، بلاول بھٹو کا ایک بار پھر بینظیر انکم سپورٹ کے تحت سیلاب زدگان کی مدد پر زور
’یہ صوبوں کی خودمختاری ہے۔ جہاں تک مریم نواز کے پانی سے متعلق بیان کی بات ہے تو تمام صوبوں کے اتفاق سے صوبہ اپنا اپنا حصہ استعمال کرتا ہے۔‘
بیرسٹر عقیل احمد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اچھا پروگرام ہے لیکن اس میں سیلاب متاثرین کا ڈیٹا درج نہیں ہے اور اس میں کچھ مسائل بھی ہیں۔
’آڈیٹر جنرل نے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن اگر کوئی صوبہ اپنی مرضی سے کوئی نیا پروگرام شروع کر کے امداد دینا چاہتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں: بی آئی ایس پی یا وزیراعلیٰ کارڈ: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سیلاب زدگان کی امداد کے طریقے پر کیوں لڑ رہی ہیں؟
بیرسٹر عقیل احمد کے مطابق پنجاب حکومت نے ’اپنا گھر‘ اور دیگر مختلف منصوبوں کے لیے بھی ڈیٹا جمع کیا ہوا ہے، تو ایسا نہیں ہے کہ پنجاب کے پاس ڈیٹا نہیں ہے۔
’اگر پنجاب حکومت متاثرین کی زیادہ امداد کرنا چاہتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر تو یہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ یہ کوئی عام سا اختلاف ہے جو چند دنوں میں ختم ہو جائے گا، تاہم اب ایسا نظر نہیں آ رہا۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال نہ کرنا غفلت ہوگی، آصفہ بھٹو
یہ معاملہ صرف امداد تک محدود نہیں بلکہ ایک طاقت کی کھینچا تانی ہے کہ حکومت میں ’فیصلہ کن کردار‘ کون ادا کرے گا۔ اگر ان اختلافات کو فوری طور پر نہ سلجھایا گیا تو آئندہ بجٹ اجلاس اور مشترکہ مفادات کونسل میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر یہ اختلافات وقت پر حل نہ ہوئے تو ممکن ہے کہ امداد کی تقسیم میں تاخیر ہو اور متاثرین کو بروقت مدد نہ پہنچے۔ سیاسی طور پر، اگر پیپلز پارٹی اپنا مؤقف برقرار رکھے اور ن لیگ نہ مانے، تو اتحاد پر تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانے کے لیے سب سے مؤثر اور تیز ترین ذریعہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، کیونکہ اس کا ڈیٹا بیس مضبوط اور شفاف ہے اور یہ وفاقی سطح پر غریب خاندانوں تک براہِ راست نقد امداد پہنچانے کا نظام رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کو اقوام متحدہ سے سیلاب زدگان کی امداد کی اپیل کرنی چاہیے، وزیر اعلیٰ سندھ
پیپلز پارٹی کی قیادت کہتی ہے کہ اگر پنجاب حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرے تو امداد بہتر اور جلد پہنچ سکتی ہے۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ امداد کی تقسیم اور انتظام صوبے کا داخلی معاملہ ہے اور وہ اپنی ترجیحات اور اپنے عملے کے ذریعے امداد فراہم کرے گی۔ حکومتی ترجمان نے پیپلز پارٹی کی تنقید کو سیاسی نکتہ چینی قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے ن لیگ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے، جو ان کے نزدیک عوام کو بنیادی امداد پہنچانے میں تعطل ہے۔
مزید پڑھیں: بینظر انکم سپورٹ تنازعہ: شازیہ مری کا مریم نواز اور عظمیٰ بخاری کو جواب
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی دوریوں کے پیش نظر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیمبر میں گزشتہ روز اہم ملاقات میں اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ، اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے سخت بیانات پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ ن لیگ نے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اختلافات کو میڈیا کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار بیرسٹر عقیل احمد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی ڈیٹا بیس رانا ثنا اللہ مریم نواز مسلم لیگ ن نوید قمر وزیراعلٰی پنجاب