اب تک غزہ میں جنگبندی کیلئے امریکی تجاویز موصول نہیں ہوئیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں طاہر النونو کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور غزہ سے صیہونی فوج کے انخلاء کی صورت میں تمام صیہونی قیدی رہا کر دئیے جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے اہم سینئر رہنماء طاہر النونو نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے نہ تو حماس، امریکہ کے موجودہ مجوزہ منصوبے میں شریک ہے اور نہ ہی ابھی تک ہمیں ایسی کوئی تجاویز موصول ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کے مجوزہ منصوبے کا جائزہ، فلسطینی عوام کے حقوق اور مفادات کی ضمانت کے تناظر میں لیں گے۔ اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور غزہ سے صیہونی فوج کے انخلاء کی صورت میں تمام صیہونی قیدی رہا کر دئیے جائیں گے۔ ہم ان شرائط کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ طاہر النونو نے کہا کہ ہم مستقل جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔ ہم نے غزہ کی پٹی میں خود مختار انتظامیہ بنانے کی مصری تجویز کو قبول کیا ہے۔ ہمارے ہتھیار ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے جڑے ہیں۔ واضح رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس کے اہم پوائنٹس یہ ہیں:
* جنگبندی کے پہلے 48 گھنٹوں میں تمام قیدیوں کی رہائی۔
* مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوجوں کا بتدریج انخلاء۔
* عمر قید كے تقریباً 250 فلسطینی قیدی اور 7 اکتوبر 2023ء سے حراست میں لئے گئے 2000 قیدیوں کی رہائی۔
* حماس کی غیر موجودگی میں غزہ میں حکومت کا قیام، جس میں ایک بین الاقوامی-عرب کمیٹی، فلسطینی اتھارٹی کا ایک نمائندہ اور آزاد فلسطین میں سے ایک ٹیکنوکریٹ شامل ہو۔
* فلسطینیوں، عربوں اور مسلم افواج پر مشتمل ایک سیکورٹی فورس کا قیام۔
* عرب و مسلم ممالک کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو اور ترقی کے لئے مالی فراہمی۔
* حماس کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ سرنگوں اور بھاری ہتھیاروں کو تباہ کرنے کا عمل۔
* اسرائیل کے لئے ویسٹ بینک یا غزہ کے کچھ حصوں کو اپنے ساتھ ملا لینے پر پابندی۔
* اسرائیل کی جانب سے مستقبل میں قطر پر حملہ نہ کرنے کا عہد۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
آسٹریلیا کی سنگین جرائم کے احتساب کیلئے طالبان کیخلاف نئی پابندیوں کی تجاویز
آسٹریلوی حکومت نے سنگین جرائم کے احتساب کے لیے طالبان کے خلاف نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں۔
سنگین جرائم میں ملوث افغان طالبان پر آسٹریلیا کی پابندیوں کی تجویز پر ہیومن رائٹس واچ نے حمایت کر دی۔
آسٹریلوی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر طالبان پر پابندیوں کے قوانین میں ترامیم زیر غور ہیں، نئے قوانین میں ترامیم سے افغانستان کے لیے مخصوص معیار متعارف کرائیں گے۔
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے افغانستان پر سفری پابندیاں عائد کی جا سکیں گی۔
دوسری جانب آسٹریلوی ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم انسانی حقوق کے مجرم طالبان کے احتساب کی جانب اہم قدم ہیں۔ طالبان کی خواتین کے بنیادی حقوق پر قدغنیں جرمِ انسانیت اور صنفی ظلم وستم کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یو این انسانی حقوق ماہرین طالبان کے خواتین کے خلاف منظم مظالم کو صنفی تفریق قرار دے چکے ہیں، طالبان حکام نے سول آزادیوں کو محدود کرتے ہوئے صحافیوں و کارکنان کو حراست اور تشدد کا نشانہ بنایا۔