امریکا ایران معاہدے کے بعد 100 ایرانی شہری ملک بدر؛ تہران پہنچادیے گئے
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
امریکا نے تہران سے معاہدے کے بعد تقریباً 100 ایرانی شہریوں کو ملک بدر کردیا ہے۔ ان افراد کی شناخت اور امریکا آنے کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ ایک امریکی چارٹرڈ فلائٹ امریکی ریاست لوزیانا سے روانہ ہوئی جو قطر کے راستے ایران پہنچی۔
رپورٹ کے مطابق کچھ ایرانی شہریوں نے کئی ماہ حراستی مراکز میں رہنے کے بعد رضاکارانہ طور پر واپس جانے پر آمادگی ظاہر کی، جبکہ کچھ کو زبردستی بھیجا گیا۔ ایران کی وزارتِ خارجہ ان افراد کی واپسی کے انتظامات کر رہی ہے اور یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انہیں وطن واپس آنے پر کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی امریکا میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں غیر قانونی سرحدی داخلوں میں اضافہ ہوا، اس لیے یہ اقدام ضروری ہے۔ تاہم ان کی انتظامیہ کو ملک بدری کی رفتار بڑھانے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال فروری میں بھی امریکا نے ایران اور پاناما سمیت 119 ممالک کے شہریوں کو واپس بھیجا تھا، جب کہ 23 مارچ 2025 کو ٹرمپ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن کی قانونی حیثیت ختم کی جا رہی ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
ایران میں حجاب نہ پہننے پر سخت سزاؤں کا اطلاق؛ عدالتی سربراہ کا بیان سامنے آگیا
ایرانی عدلیہ نے ملک میں خواتین کے حجاب نہ پہننے پر سخت اقدامات کا مطالبہ کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی کہا ہے کہ ملک میں سماجی "بے قاعدگیوں" سے نمٹنے کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے حجاب قوانین پر عمل درآمد میں نرمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت سزاؤں کے اطلاق کا مطالبہ بھی کیا۔
عدالتی سربراہ نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اور ملک بھر کے تمام پراسیکیوٹرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کر کے سماجی بے اعتدالیوں میں ملوث منظم اور بیرونی روابط رکھنے والی سرگرمیوں کی نشاندہی کریں اور انہیں عدلیہ کے سامنے پیش کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دشمن اس کوششوں میں ہے کہ حجاب نہ پہننے پر سزاؤں کو نرم کروا کر ملک میں بے حیائی کو فروغ دے۔
تاحال ایرانی صدر یا حکومت کی جانب سے عدالتی سربراہ کے اس مطالبے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالتی سربراہ کو روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر سر ڈھانپنا اور ڈھیلے ڈھالے لباس پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
تاہم نوجوان کرد لڑکی مہسا امینی کی تھانے میں مبینہ ہلاکت کے بعد حجاب پابندیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے بعد سزاؤں میں نرمی دیکھی گئی۔
البتہ اسرائیل اور امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں درجن سے زائد افراد کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔